ہیومن ملک بنک

تاریخ گواہ ہے کہ یہود بادشاہ ہیروٹ اینٹی پس جب روم کا بادشاہ بن چکا تو اس نے اپنے بھائی کے زندہ ہونے کے باوجود اپنی بھابی ہیرودیس سے شادی کر لی۔جس کی بیٹی سیلون نے اپنے سگے چچا سے شادی کر رکھی تھی۔  یہ سب خدا کے قانون کے خلاف تھا۔لیکن اقتدار کا نشہ اور علماء سو کی حمایت،بہرحال یہ واقعہ طویل ہے پر یہیں تک سنانا مقصود ہے۔

 نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں ؟ آپ نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے ؟“(صحیح بخاری)

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹولوجی (SICHN) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسلام آباد، پروفیسر جمال رضا نے کہا کہ انہیں SICHN  پاکستان کا پہلا اور واحد شریعت کے مطابق ہیومن ملک بینک کا آغاز کرنے پر فخر ہے. اس خبر کی تفصیل بھی سرچ کی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا آپ کو سمجھ آئی کہ یہ کس طرف پیش قدمی ہے.؟

ہاں ! اب اثرات پر ذرا نظر ڈالتے ہیں۔: رضاعی بہن بھائی بھی حقیقی بہن بھائیوں کی طرح محرم سمجھے جاتے ہیں۔ رضاعت (دودھ پلانے) کے ذریعے قائم ہونے والے رشتے کی بنیاد پر ان کے درمیان محرمیت کا تعلق قائم ہوتا ہے، یعنی ان کے درمیان نکاح ممنوع ہو جاتا ہے۔ بے شک وراثت میں حصہ نہیں پاتے۔ کیونکہ اسلامی قوانین کے تحت وراثت صرف خونی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، جبکہ رضاعی رشتہ دار اس میں شامل نہیں ہوتے۔لیکن رضاعی بہن بھائیوں کے درمیان اخلاقی اور سماجی تعلقات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسلام میں محبت، بھائی چارہ، اور احترام کی تلقین کی جاتی ہے، جو رضاعی بہن بھائیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہیومن ملک بینک کے قیام کے اسلامی حوالے سے معاشرتی مسائل اور رشتے یا شادیوں میں ہونے والے  خدشات کے نتائج اور  اثرات خدانخواستہ نسلوں تک جائیں گے ۔

“رضاعی رشتوں کا تعین”

 ہیومن ملک بینک سے دودھ حاصل کرنے والے بچوں کے درمیان رضاعی رشتے قائم ہو جائیں گے، اور مستقبل میں شادیوں میں نہ صرف مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔بلکہ پورے اسلامی معاشرے کے لیے یہ معاملہ کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا۔

“نکاح کی حرمت”

 اسلام میں رضاعی بہن بھائیوں کا آپس میں نکاح حرام ہے۔ اگر رضاعی رشتے درست طریقے سے معلوم نہ ہوں تو بے خبری میں ایسے نکاح ہو سکتے ہیں جو شرعی طور پر جائز نہیں۔

 “ثقافتی اور مذہبی حساسیت”

پاکستان میں لوگوں کی اکثریت اسلامی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ ہیومن ملک بینک کے قیام پر معاشرتی اور ثقافتی اعتراضات خطرناک حد تک عوامی ردعمل کو ظاہر کریں گے۔اور ہونا بھی یہی چاہئیے ۔

“علماء کی رائے”

مختلف علماء اور مذہبی اسکالرز ہیومن ملک بینک کے بارے میں مختلف رائے رکھیں گے۔ جس پر مختلف مکاتب فکر کی تشریحات اور فتاویٰ بھی مختلف ہو سکتے ہیں، جن سے عوام میں نہ صرف  الجھن پیدا ہو گی بلکہ فرقہ واریت کو ہوا ملے گی۔علماء سو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فتوے دیں گے۔

بینک کے قیام اور اس کے استعمال کے حوالے سے اسلامی شرعی رہنمائی ، معاشرتی مسائل اور نکاح کے حوالے سے پیدا ہونے والے تفکرات کو دور کریں گے اور ناخواندہ یا علم نہ رکھنے والی، غربت کی چکی میں پستی عوام،جن میں پڑھے لکھے جاہل تو پیش پیش ہوں گے۔ایسے ہی کسی فتوے کو آخرت میں آزادی کا پروانہ خیال کر تے ہوئے اپنا الو سیدھا کریں گے۔

جب کہ مہنگائی کی جنگ کے دوران ، خالی پیٹوں کو ایک اور موقع میسر آ جائے گا۔جس معاشرے میں باپ  پہلے ہی اپنی اولادوں  کے منہ میں نوالہ ڈالنے یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے گردے بیچ رہے تھے۔ وہاں مائیں اپنا دودھ بیچ کر اپنی مامتا کا حق نبھائیں گی۔ غریب کے ہاتھوں نوالہ تو چھنتا ہی تھا اب لا چار شیر خوار  کے منہ سے دودھ کا گھونٹ  بھی چھن جائے گا۔

اور سب سے بھیانک انجام کا تصور کرنے کے لیے 20سال بعد کےرضاعی رشتوں کے درمیان  ہونے والے نکاح کے اثرات کو نظر میں لائیے۔ ورنہ تحریر کے شروع میں سنایا گیا سچا واقعہ اور یہو و نصاری کی پیروی کرنے والی حدیث کا حوالہ کافی ہے۔۔۔

یاد رکھیں جس طرح  خیر کا ماخذ ہمیشہ وحی الٰہی اور حلال و حرام کا دستور  ہی رہا ہے اسی طرح شر کی جڑ بھی شیطان  کے سینگ تک ہی پہنچتی ہے۔وہ زمانے کے ساتھ اپنے وسائل و ذرائع  کے ساتھ اپنے اسباب و اسلوب بھی بدل لیتا ہے۔لہذا

 اس مسئلے پرصرف جذباتی ردعمل دینے کی بجائے، سنجیدگی سے غور کریں اور مسئلے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھ  کھڑے ہوں اور اپنی آواز بلند کریں ۔اور اس اقدام  کو پہلے قدم پہ روک کر  آخری ثابت کر دیں۔