خان بابا منڈی میں بکرے کا بھاؤ لگاتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا کیونکہ اتنا سستا بکرا دیکھ کر لوگ بھی حیران ہونے لگے تھے:
” آئیں ،سستا اور معیاری بکرا کہیں اور سے نہیں ملے گا ، آئیں اور لے جائیں سستا اور معیاری بکرا ،پوری تسلی کریں پھر لے کر جائیں”
بکرا تو اچھا خاصا ہے مگر بھاؤ تو مناسب سے بھی نیچے ہے ۔کوئی بیماری تو نہیں ہے بکرے کو ؟
ارے نہیں حضرت! یہ تو ہم اپنے گاؤں سے لایا ہے ۔اور یہ ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہوا ہے تم خامخواہ میں ہمارے بچے جیسے بکرے کو عیب دار مت کرو،،
ارے نہیں خان صاحب! آپ تو برا ہی منا گئے ،میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا ۔ آپ ایسا کیجئے مُجھے یہ بکرا دے دیجیئے میں اسے خریدنا چاہتا ہوں ،،
خان بابا نے گاہک سے رقم وصول کر کے بکرے کی رسی اس کے ہاتھ پکڑائی اور فوری طور پر بس کے سفر سے اپنے گاؤں جا پہنچا ۔گاہک خان بابا سے بکرا لے کر جیسے ہی اپنے محلے پہنچا تو فیروز نامی شخص نے اسے مخاطب کیا ۔فیروز اس گاہک کا ہمسایہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔
” اکرم بھائی یہ بکرا تو میرا ہے جو تین دن پہلے چوری ہوا تھا میں نے شاید آپ سے ذکر بھی کیا تھا ،میں اسے اچھی طرح پہچان سکتا ہوں”
لیکن فیروز! یہ بکرا تو میں منڈی سے ابھی ابھی خرید کر لارہا ہوں ۔”
” کونسی منڈی مجھے اس بیوپار کے پاس لے چلو مجھے لگتا ہے میرا بکرا اسی نے چرایا تھا ۔” اکرم فیروز سے بے صبری سے پوچھنے لگا اسے امید کی کرن نظر آنے لگی ۔اکرم کے گھر میں تین دن پہلے قربانی کا بکرا چوری ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے گھر کے ہر فرد کی آنکھ اشکبار تھی کیونکہ اکرم ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے پائی پائی جوڑ کر اپنی جمع پونجی سے یہ بکرا خریدا تھا ۔
اب فیروز کو بھی سمجھ آنے لگی تھی کہ خان بابا نے اسے اتنا سستا بکرا کیوں دیا ۔خان بابا اب بہت دور نکل چکا تھا اور بکرا اکرم کی پہنچ سے اب بہت دور جا چکا تھا ۔
فیروز نے وہ خریدا ہوا بکرا اکرم کے حوالے کرتے ہوئے کہا :
یہ بکرا تمہارا ہے فیروز، اسی لیے تمہیں یہ واپس مل گیا ۔اصل قربانی تو وہ ہوتی ہے جسے اللہ قبول کرے اور جو جائز طریقے سے کی جائے ۔تم نے پائی پائی جوڑ کر قربانی کا جانور اللہ کی رضا کے لیے خریدا اور اللہ نے اسے قبول فرمایا ۔تمہاری قربانی قبول ہو چکی ہے جبھی تو اللہ نے تمہاری قربانی کو تم سے دوبارہ سے ملوا دیا ،بالکل ویسے جیسے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دوبارہ ملوایا تھا۔وہ نیتوں کو دیکھتا ہے اسی لیے تمہارا بکرا اگر تمہیں نا بھی ملتا تو تمہاری قربانی قبول ہو چکی تھی ۔
” نہیں فیروز بھائی ،یہ بکرا اب آپ کا ہے میں اسے نہیں رکھ سکتا آپ اسے خرید کر لائیں ہیں ۔میری قربانی اللہ کے حضور قبول ہو چکی مجھے اور کیا چاہیئے ۔”
اکرم کا اتنا کہنا تھا کہ کسی تیسرے فریق نے ان کی گفتگو میں مداخلت کی :
” فیروز بھائی اکرم بھائی ! کیا آپ نے خبر سنی ہے؟”
کیسی خبر “۔ تجسس زدہ لہجے میں دونوں ایک ساتھ بولے
” ایک خان بابا چوری شدہ بکرے منڈی میں فروخت کر کے اپنے گاؤں کی طرف نکل رہا تھا کہ پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا ۔اور جن لوگوں نے اپنے چوری ہونے والے بکرے کی تھانے میں رپٹ درج کروائی تھی وہ مکمل ثبوت کے ساتھ اپنے بکرے کی رقم پولیس اسٹیشن سے لے سکتے ہیں ۔فواد صاحب بھی اپنے بکرے کی رقم تھانے سے لے کر آئیں ہیں ۔آپ بھی اپنے بکرے کی رقم تھانے سے لا سکتے ہیں ۔”
یہ خبر سنتے ہی دونوں کے چہروں پر ہریالی آگئی ۔
” ہم دونوں کی ہی قربانی قبول ہو چکی ہے اکرم بھائی۔” فیروز کی اس بات پر دونوں ہنستے ہوئے تھانے کی جانب چل دیے ۔