اطاعتِ الٰہی کاصلہ

میاں صاحب نے بیوی سےکہابچےکواٹھالواورضرورت کاسامان لےلو ہم چلیں۔ بیوی نےایسےہی کیااوران کاسفر شروع ہوگیا؛ آخرکاروہ منزل پرپہنچ گئے۔میاں صاحب نے بیوی اور بچے کووہیں ٹھہرایاخود واپس پلٹنے لگےتوبیوی نے پوچھا یہ آپ کس کے حکم سے ایساکررہے ہیں؟ میاں نے کہا؛ “اللہ کےحکم سے” اللہ والی نے زبان سے پکار کر کہا “تو پھر وہ ہمیں ضائع نہ کرے گا” ۔ میاں صاحب واپس چلے آئے ۔ بیوی اور شیر خوار معصوم بچہ بحکمِ رب تعالٰی وہیں ٹھہر گئے۔

ربِ کائنات کی خاطر سفر وہجرت کرنے والے یہ معزز و مشرف لوگ کون ہیں؟ کون ہیں جن کا ذکرِ خیر تاقیامت جاری رہے گا؟ کون ہیں جن کی تابع فرمانی رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے نمونہ ہے؟

اللہ اکبر کبیرا ۔۔ یہ با سعادت لوگ ابراہیم علیہ السلام اور خانوادۂِ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔

وہ جگہ جہاں آج حرمِ کعبہ موجود ہے، آج جس کی رونق و رنگینیوں سے سارا عالم رنگین و روشن ہے ، ایک وقت تھا جب وہ جگہ ویران و بے آباد تھی ۔ خالقِ کائنات نے اس خطۂِ ارض کو اپنے مرکز و حرم کے لیے پسند کیا اور جہان بھر سے اپنے برگزیدہ بندے کو حکم دیا کہ اپنا گھر بے آباد کرکے میرا گھر، میرا حرم آباد کرو۔ چنانچہ اس مردِ مجاھد و مردِ قلندر نے بے چون و چرا اس حکم کی تعمیل کی ۔

آفریں اس معزز ہم سفر صنفِ نازک، میری اماں سیدہ ھاجرہ علیھا السلام پر کہ جنہوں نے حکمِ الٰہی پر کوئی سوال نہ کیا بلکہ دل کے ثبات و اقرار سے اس حکم کو قبول کرلیا۔

پس سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچے کو رب العالمین کی سپردگی میں دے کر واپس پلٹ آئے۔ سیدہ ھاجرہ اسی مقام مقدس پر ٹھہریں اور اس کو آباد کرنے کا ذریعہ بنیں۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب پانی خشک ہوچکا تو معصوم فرزندِ ارجمند اسماعیل علیہ السلام کو پیاس نے ستایا تو ماں اپنے لعاب سے بچے کو سیراب کرتی رہی مگر جب پیاس نے شدت اختیار کی تو ماں نے پانی کی تلاش میں ، تپتی دھوپ میں پتھریلی زمین پر پہاڑیوں پر دوڑنا شروع کردیا یوں سات چکر مکمل ہوئے تو بیٹے کے قدموں سے پانی جاری ہوا جوآج بھی جاری ہے اور آبِ زم زم کے نام سے مشہور ہے۔

یہ اماں جان ھاجرہ سلام اللہ علیہا کا بے تابی سے دوڑنا خالق کائنات کواتنا پسند آیا کہ ساری دنیا کے حجاجِ کرام اور معتمرین عزام کوحکم ہے کہ سیدہ کے قدموں پہ قدم رکھو اور اس مقام پر ان کی یاد میں دوڑو ۔دوڑنے کے اس عمل “سعی” سے موسوم کیاگیا۔ پس جس نے سعی نہ کی نہ اس کا حج قبول ہے ،نہ عمرہ قبول ہے۔

یہ رب کائنات کی بے چون و چرا اطاعت کا صلہ ہے ۔ اللہ بتاتا ہے کہ جو میرا مطیع ہو جائے میں سارے جہاں کو اس کا تابع کرسکتاہوں۔

حصہ