قربانی ! اللہ کی رضا کا ذریعہ

وہ ایک متوسط طبقے کا رہائشی علاقہ تھا بلکہ کچھ لوگ نچلےطبقے سے بھی تعلق رکھتے تھے. چھوٹے موٹے کاروبار سے منسلک لوگ تھے جو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔

بشیر صاحب اور انکی فیملی کو یہاں شفٹ ہوئے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے انکا شہر میں اپنا بڑکاروبار تھا کچھ رشتے دار بیرون ملک بھی رہائش پذیر تھے ،اس بات کا چرچا انکی بیوی نگہت کے منہ سے تمام محلے والے کئی بار سن چکے تھے غرض کہ ان کے طرز زندگی سے خوشحالی نمایاں تھی۔

ذوالحج کے آنے سے پہلے ہی پورے محلے کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ لوگ ایک گائے اور دو بکروں کی قربانی کریں گے، ویسے تو اس علاقے میں آدھی سے زیادہ آبادی خاموشی سے قربانی کا فریضہ انجام دے رہی تھی ،لیکن انکی فربہ گائے اور بکروں کی دھوم ہورے محلے میں مچی ہوئی تھی ، اور اکثر لوگ انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھ بھی رہے تھے خصوصا وہ لوگ جنہیں شاذونادر گوشت کھانا نصیب ہوتا تھا، اور شاید اس انتظار میں بھی تھے کہ بشیر صاحب انکے پاس بھی گوشت بھیج دیںگے۔

خیر ذوالحج کا مہینہ شروع ہوا توـــ اللہ اکبراللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد کی صداوں نے دلوں میں ایک روحانی کیفیت پیدا کردی ،سبحان اللہ ۔ اور ذوالحج کی دس تاریخ کو نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، امی نے بابا اور بھائیوں کو تاکید کی کہ جلدی قربانی کروادیجئے گا تاکہ رشتہ داروں خاص طور پر ان رشتے داروں تک گوشت جلدی پہنچ جائے جو خود قربانی نہیں کرسکتے ،اور اس بات میں گھر کے تمام افراد کی کوشش شامل تھی پھر امی جی نے قربانی کے گوشت کے دس بارہ حصے بڑے بیٹے کے حوالے کئے کہ جاکر پہلے رشتے داروں کو دے کر آو، پھر محلے کے اس پاس کے کچھ گھروں کو بھی گوشت پہنچاو۔

بشیر صاحب نے بھی عید کے پہلے دن اپنے تمام جانوروں کی قربانی ادا کردی ، انہوں نے اپنےپڑوس یعنی ہمارے گھر بھی گوشت بھجوادیا۔ یہ عید کے چوتھے روز کی بات ہے کہ بشیر صاحب کا بڑا بیٹا ایک بہت بڑا تھیلا لیکر گھر سے باہر نکلا اتفاقا اس وقت بھائی جان بھی کسی کام سے جارہے تھے ۔سلام دعا ہوئی ،بھائی جان کو اس تھیلے میں سے بدبو محسوس ہوئی لیکن انہوں نے اپنا وہم سمجھ کر اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور چلتے چلتے بشیر صاحب کے بیٹے سے حال احوال معلوم کرنے لگ گئے گلی کے نکڑ پر پہنچ کربشیر صاحب کے بیٹے نے وہ تھیلا کچرہ کنڈی میں پھینک دیا ،بھائی جان نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا بکرے کے گوشت سے تو سارا ڈیپ فریزر بھر گیا تھا اس گائے کے گوشت کی فریج میں جگہ نہیں تھی اس لئے خراب ہوگیا ہے۔ ابھی یہ دونوں نوجوان گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ایک بھکاری آیا اور اس کچرا کنڈی میں سے وہ سڑا ہوا گوشت خوشی خوشی نکال کر لے گیا۔

بھائی جان نے آکر امی کو پوری روداد سنائی ،اندر کمرے میں دادا جان نے بھی یہ بات سنی تو باہر آئے اور کہا افسوس ایسے لوگوں پر ،،، قربانی تو اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جب اس میں تقوی ہو اور اس قربانی کا گوشت ضرورت مندوں تک بھی پہنچانا افضل ہے، قربانی حضرت ابراہیم علیہ والہ وسلم کی سنت ہے، اس میں امت مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ ،،، پھر وہ امی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے علمبردار کا یہ فرض ہے کہ حق بات سامنے والے کو مثبت طریقے سے پہنچائے اس لئے بشیر صاحب کے گھر والوں کو یہ بتانا ہمارا فرض ہے کہ عید الضحٰی کی قربانی اور اس گوشت کی تقسیم کے کیا اصول ہیں،اگر آس پاس سفید پوش لوگ جو مانگنے سے شرم محسوس کرتے ہیں ان کو تلاش کرنا ہمارا فرض ہے ہم دوسرے محلوں میں نہیں تو کم از کم اپنے آس پاس تو نظر رکھ سکتے ہیں۔ اگر شبیر صاحب کے گھر والے یہ گوشت عید کے پہلے دن مستحقین تک پہنچاتے تو کم از کم دس گھروں کے لوگوں کو تو گوشت کھانا نصیب ہو سکتا تھا۔ پھر انہوں نے پوتوں اور پوتیوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ نیکی کی نمود ونمائش کرنا یا دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اللہ کو پسند نہیں بلکہ ایسے عمل میں ریا کاری کے ساتھ ساتھ تکبر کی جھلک بھی پائی جاتی ہے لہٰذا ہمیں ان برائیوں سے نہ صرف خود بلکہ اپنی اولاد کو بھی بچنے کی تلقین کرنا ضروری ہے۔امی نے داداسے وعدہ کیا کہ وہ ضرورنگہت کو مثبت طریقے سے یہ سب کچھ بتانے کی کوشش کریں گی۔

حصہ