واجب ہے

میں گم صم ان کے سامنے بیٹھی رہی. میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا دنیا کا کوئی لفظ میرے ذہن میں ہلچل مچانے والے خیالات کی ترجمانی کے لائق نہ تھا. موئثر ترین جملے میرے دل کی کیفیت کے اظہار کے لیے نا کافی تھے۔

میں کرسی قریب سرکا کر انکا مطمئن اور پر نور چہرہ دیکھتی رہی اور انکے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہے ہوئے الفاظ سماعت کے ذریعہ دل کی گہرائیوں میں اتارتی رہی۔۔۔۔

انکا چہرہ ان کی گفتگو کی سچائی کا گواہ تھا۔

مجھے دکھ بالکل نہیں ہے، بس اللہ اس کی شہادت قبول کرلے۔

اللہ نے مجھے اس مرتبے کے لیے چنا ہے، مجھے دکھ نہیں ہے،،، بس مجھے اس بچی کی فکر ہے۔

انہں نے صبر و استقامت کا پیکر بنی قریب بیٹھی اپنی کم عمر بہو کی طرف اشارہ کیا جس کی شادی کو صرف سال بھر ہوا ہے… چند منٹ کی نشست میں یہ بات انہوں نے کئی دفعہ دہرائی،،، اللہ اس کی شہادت قبول کرلے مجھے دکھ نہیں ہے،،، دن میں کئی بار یاد آتا ہے تو رو لیتی ہوں۔۔۔۔

میرے آس پاس رہنا چاہتا تھا. میری کرسی کے پاس فرش پہ بیٹھ کر اپنے لیپ ٹاپ پر کام کیا کرتا تھا. کبھی میرے زانو پہ سر رکھ دیا کرتا. بس میرے قریب ہو کر بیٹھتا،،،،، وہ سکون سے بول رہی تھیں۔

بیٹے نے کہا  !  امی یہ بہتر ہوا کہ واقعہ گیٹ کے سامنے ہوا اور ہم اسی لمحے اس کے پاس پنہچ گئے ورنہ ہم نہ جانے کب اس تک پنہچتے اور کتنی پریشانی اور اذیت سے گزرتے۔۔۔

یہ وہ کیفیت ہے جو اللہ کی خصوصی دین ہے، یہ وہ شرف ہے کہ وہی جس کو چاہے عطا کرے. یہ طرز فکر یہ لب و لہجہ، صبر و استقامت انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔۔۔۔

مجھے اس لمحے نو عمر شہید عبد الرحمن کی نانی جان کے وہ الفاظ یاد آ گئے جو گھر میں اس کے جسد خاکی کی آمد سے پہلے انہوں نے کہے تھے۔

اللہ اپنے مومن بندے کے دل میں پہلے صبر اتارتا ہے پھر اس پر آزمائش ڈالتا ہے۔

بے شک اگر اس مرحلے پر اللہ دلوں کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لے، اپنی معجزانہ سکینت نا اتارے تو انسان تنہا اس قابل نہیں ہوتا کہ سب کچھ اتنے حوصلے اور استقامت سے برداشت کر جائے،،، گھر کے ماحول کی اداسی پر سکون و سکینت غالب تھی.

تیسرے دن بھی پورے گھر میں دریاں اور کرسیاں اس طرح موجود تھیں جیسے ابھی ابھی جسد خاکی یہاں سے لے جایا گیا ہے۔

کیونکہ محبت کرنے والوں کا تانتا مستقل بندھا ہوا تھا. گولڈ میڈلسٹ انجینیر اتّقاء کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ جس نے سنا دل تھام کے رہ گیا،،،، جاننے والے گواہ ہیں کہ بلاشبہ وہ ایک غیر معمولی اور منفرد نوجوان تھا۔

ارباب حل و عقد اس شہر کے ساتھ سالہا سال سے جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اس میں ایک اتقاء جیسا ذہین، نیک، ہونہار جوان ہی نہیں جان سے ہارا ہے، نہ جانے کتنی ماؤں کے دل کے ٹکڑے چھین لیے گئے اور کتنی کم سن بیواؤں کی سہاگ اجاڑ دیئے گئے۔

نا جانے کب تک یہ شہر سڑکوں اور ایوانوں کے ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا۔

اے میرے روشنیوں کے شہر کے صم بکم عُمیُُ باسیو !

کب تک ؟ آخر کب تک ؟ ناجائز قبضہ گیروں کی درندگی برداشت کرو گے؟

(فیض سے معذرت کے ساتھ)

جس دیس میں سونے کے تمغے ارزاں ہوں ایک موبائل سے

جس دیس میں میرے اہل ہنر خونوں میں نہلائے جاتے ہوں

کم عمر سہاگن کے سپنے دہشت سے بکھیرے جاتے ہوں

جس دیس مین ماؤں کی گودیں لمحوں میں اجاڑی جاتی ہوں

اس دیس کے ہر ایک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے۔