۔ 365 دن میں سے یہ خرافات کیا صرف صرف چودہ فروری کو ہی ہوتی ہے ؟

گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا سکڑ کر ایک دوسرے کے قریب آ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف تہذیب و تمدن ایک دوسرے کے اندر بتدریج ارتقائی مرحلوں سے گزرتے ہوئے ضم ہونے لگی ہیں۔یہ تہوار، روایات اور مختلف ثقافتیں بہت آہستگی سے ہمارے قومی مزاج میں اپنائی جانے لگی ہیں ان عالمی ثقافتی تہواروں میں فادر ڈے، مدر ڈے، ویلنٹائن ڈے کے علاوہ بھی حوالے موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں جس تہوار کو شدت پسندی کی نظر کر دیا گیا ہے وہ ویلنٹائن ڈے ہے شاید ہم بدقسمتی کے اس مقام پر ہیں کہ جہاں مغرب سے آنے والی کوئی اصطلاح، روایات،تہوار جب ہمارے سماج میں آتی ہیں ہم اس میں سے جب تک منفی پہلو نہ نکالیں ہمیں چین نہیں آتا۔
ہمارے سماج میں اس کی مخالفت کی بنیادی وجہ محبت کے جذبے کے اظہار کو انتہائی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے سرعام محبت کا اظہار کرنے والا باعثِ معتوب گردانا جاتا ہے بزرگوں کے نزدیک ایسے نوجوان ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور دوسری وجہ اس کا تعلق مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ مذہبی تہوار نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی تہوار ہے اس کا شمار عالمی دن میں مثبت، سماجی نوعیت کے اعتبار سے کیا جانا چاہیے اس کا تعلق مذہبی ہے نہ ہی اس کا اثر بنیادی عقائد پر پڑتا ہے۔
حالانکہ دیکھا جائے تو برصغیر میں عشق و محبت سے منسوب داستانیں، شاعری، میلے ٹھیلوں پر محبوب سے ملاقات کی روداد ہمارے ادب میں موجود ہے اس پر بے تحاشا لکھا بھی گیا پڑھا بھی گیا اور پسند بھی کیا گیا۔
اگر رومینٹک گانے بن سکتے ہیں شادی بیاہ پر گھر کے اندر کی تقاریب میں لڑکیاں بالیاں اور لڑکے مخلوط محفل میں یہ گانے گا سکتے ہیں، انھی گانوں پر مقابلے کیے جا سکتے ہیں، عشق و محبت میں ڈوبی فلم و ڈرامے بن سکتے ہیں،عشقیہ گانوں کے ٹاپ ٹین چارٹ، میوزک چارٹ کے پروگرام چلائے جا سکتے ہیں اور گھروں میں عام دیکھے اور پسند کئے جا سکتے ہیں ان پر سرعام ہم بات بھی کر سکتے ہیں تو تہوار کیوں نہیں منا سکتے؟ ویلنٹائن پر بات کرنے سے کیوں کتراتے ہیں؟
اگر بات اقدار کے منافی ہے تو صرف ویلنٹائن ہی کیوں؟ باقی یہ سب بھی بین کریں۔
خرافات کا تعلق کسی تہوار سے نہیں بلکہ ہماری سوچ سے ہے، اور یہ کسی بھی موقع پر ہو سکتی ہے اس کے لیے صرف ایک دن کو تفویض کر کے اسے بین کر دینا کیا اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ یہ اگلے دن اس سے بھی زیادہ شدت سے رونما نہ ہوگی؟ 365 دن میں سے یہ خرافات کیا صرف 14 فروری کو ہی ہوتی ہے باقی دنوں میں کیا سر پر ٹوپی ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے؟
ریاست کا کام ملک کا دفاع ہے تہواروں کو بین کرنا نہیں، بلکہ ریاست کاکام نفرت کا پرچار کرتے، دوسروں کو کافر کہہ کر جان سے مارنے والوں کو روکنا چاہیے،محبت جیسے لطیف جذبے کو بزور طاقت روکنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں تہذیبوں کا ٹکراؤ ناگزیر ہے، رسم و رواج روایات ایک دوسرے میں مکس ہو کر نئی صورت بنا رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مغربی تہواروں کو ہم اپنی اقدار کے مطابق ڈھالیں ان سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں اگر ان سے غیر اخلاقی، لغویات کو منہا کر دیں تو فقط پھول اور چاکلیٹ دے کر محبت جیسے مکمل انسانی فطری جذبہ کا اظہار کر دینے میں آخر کیا برائی ہے؟ البتہ اس جذبے کا اظہار کسی لڑکی کا راستہ روک کر یا خفیہ مقام پر لے جا کر کیا جانا غلط ہے۔
محبت تو اک مقدس احساس ہے پاکیزہ جذبہ ہے اس کا احساس پیدا ہو جانے پر فریقین اپنے والدین کو اس سے آگاہ کریں اور افہام وتفہیم سے یہ معاملہ عشق آگئے بڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
ویلنٹائن ہو یا کوئی اور ڈے، اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچوں کی حق پسندیدگی کو بجائے ریجیکٹ کرنے کے اسے قبول کر لیں۔
آپ ان کی محبت کا حق تسلیم کرتے ہوئے انھیں اس کے ساتھ نکاح کی اجازت دے دیں۔بصورت دیگر وہ یہ حق آپ کے رات کو سو جانے کے بعد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔گھر سے بھاگ کر، آپ کا سر جھکا کر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔14 فروری نہ سہی، 15 فروری کو کسی کونے کھدرے میں سماجی روایات کی دھجیاں اڑا کر بھی وصل یاب ہو سکتے ہیں۔محبت کرنا یا ہونا جرم نہیں ہے، مغربی ڈے مغربی اقدار کے چولے نہیں پہننے مت پہنیں… مگر صرف ایک دن پر قدغن لگا کر باقی کے دن آپ اپنی اولاد کو کیسے روکیں گے؟۔
انھیں محبت کرنے سے، اظہار کرنے سے گفٹ لینے یا دینے سے گھومنے پھرنے سے بے پناہ سختی کر کے محبت کی باس کو کب تک محبوس رکھیں گے؟
اولاد کی شادی گر کرنی ہی ہے تو ان ہی سے، اسی جگہ کرنے دیجیے ناں جہاں ان کی خواہش ہے۔ایک انسان کا دوسرے انسان سے محبت ہوجانا ظلم نہیں جتنا نفرت کا ہونا اور ہوتے چلے جانا۔ویلنٹائن کو مغربی، مذہبی غیر تہذیبی تہوار کی جگہ انسانی تہوار کے تناظر میں دیکھنا وقت کی ضرورت ہے یہ بلاتفریق انسانوں کا تہوار ہے پس اس انسانی تہوار کو اپنی نام نہاد سوچوں کے زاویہ پر لا کر ناپ تول مت کیجئے۔

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں