کراچی میں مسلسل بڑھتے ہوئے بدامنی و ڈکیتی اور مزاحمت کرنے یا نہ کرنے کے باوجود نوجوانوں کو قتل کرنے کے واقعات جاری ہیں۔ دو روز پہلے گلشن اقبال میں گولڈ میڈیلسٹ اتقا معین نامی نوجوان کا ڈکیتی کے دوران گھر کے سامنے قتل انتہائی تشویشناک ہے۔ دوسال قبل ان کی شادی ہوئی تھی اور ایک چند ماہ کے بچے کے والد تھے کیا مائیں اپنے بچوں کو اس لئے پیدا کرتی اور پرورش کرتی ہیں؟؟؟؟ کب تک اتنی خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوتے رہیں گے اور ملک کا اتنا قیمتی سرمایہ چند روپوں و موبائل کی وجہ سے مٹی تلے دبا دیا جائے۔
گزشتہ3، 4 ماہ سے یہ سلسلہ جاری ہے سندھ میں کچے کا علاقہ ہو یا کراچی کا پکے کا علاقہ، لگتا ہے صرف ڈاکوؤں کا راج ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عوام کس سے فریاد کرہں ایک طرف ٹیکسز اور مہنگائی و بجٹ کے نام پہ لوٹا جارہا ہے تو دوسری طرف ڈاکوؤں کے ہاتھ عوام لٹ رہیں ہیں تیسری طرف اگر ایف آئی آر کٹوانے جائیں تو پولیس کے ہاتھوں لٹیں۔
خدارا ! اس معاملے پہ ارباب حل و عقد سنجیدگی سے غور کریں، فوری ایکشن لیا جائے۔ اقتدار و ایوانوں میں بیٹھے افراد نے عوام سے ان کے جان و مال عزت وآبرو کے تحفظ کے وعدے پہ ووٹ لئے اور ان جگہوں پہ براجمان ہیں۔ مراعات و مناصب سے مستفید ہورہے ہیں اور قوم کو ان ظالموں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
آپ سب اللہ کے ہاں جواب دہ ہیں اگر آپ ظالموں و درندوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے تو آپ سب بھی اور یہ پورا نظام مملکت عنداللہ ضرور اس بڑی عدالت میں کھڑا ہوگا اور نبی مہربان صلعم و تمام انبیاء اور انسانوں کے سامنے کھلی عدالت لگے گی اور براہ راست نشر ہوگی اور ایسے تمام لوگ جو اس نظام کو چلانے کے ذمہ دار تھے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، انتظامیہ و مقننہ ہوں پولس ہو یا ججز سب کے سب مظلوموں کی گواہیوں و استغاثہ کے تحت سزا کے مستحق ٹہریں گے جنہوں نے ظلم کے اس نظام کو مضبوط کیا خاموشی اختیار کرکے اس کو سپورٹ کیا۔
اس سے پہلے کے اللہ کی عدالت لگے آپ اپنے مقام پہ بیٹھ کر ایسے تمام مجرموں کو قرار واقعی سزا دلائیں۔ مجرموں کا سب کو پتا ہوتا ہے المیہ یہ ہے کہ ان کے سرپرست ہی ہم پہ مسلط ہیں کسی نہ کسی حوالے سے ایسے لوگوں کا پتا لگانا ہمارے اداروں کا کام ہے لیکن معلوم نہیں یہ سب ادارے کب کام کریں گے؟
ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے !!!