گونگا پاکستان

یونیورسٹی بس آنے والی تھی۔ میں جلدی سے نکلی توراستے میں کسی سےایک زوردار ٹکر نےآنکھوں کے آگے ترمرے نچا دیے۔۔زمین آسمان گھوم کر رہ گئے۔ ہم دونوں اپنا اپنا سر پکڑےزور سے چلائیں”اندھی ہو کیا”۔۔بس کے ہارن نے ہوش کی دنیا میں لا پھینکا۔اووف۔ہم دونوں نے جلدی سے اپنا اپنا سامان سمیٹا اور بس کی جانب لپکے۔۔اتفاق سے سیٹ بھی ساتھ ملی۔۔بلاشبہ وہ بہت خوب صورت تھی۔۔تیکھے تیکھےنقوش اورستواں ناک ۔۔اچانک ڈرائیور چاچا نے بریک لگائ تو ایک بار پھر سر ٹکرائے۔۔اس نے مجھے گھور کر دیکھا تو میری ہنسی نکل گئی۔۔وہ بھی ہنسی ضبط نہ کر سکی۔۔یہ ہماری دوستی کا نقطہ آغاز تھا۔

“مجھے بتاؤ کہ اسائنمنٹ کا کیا کرنا ہے۔” ذکیہ نے مجھے ہاتھ مار کرمتوجہ کیا۔ میں نے ہڑبڑا کر جواب دیا۔”ارے با با چل تو رہی ہوں لائبریری۔”اس کے ساتھ ہی فون کرکے بھائ کو ٹائم بھی بتادیا۔۔وہ اس دوران خاموشی سے ہماری گفتگو سنتی رہی۔۔جب ہم دونوں لائبریری اترےتو وہ بھی ہمارے ساتھ تھی۔۔اس دوران اس نے آگے ہو کر کہا کہ کیا آپ میری بات سن سکتی ہیں؟ ۔۔میں جاپان سے اردو سیکھنے آئ ہوں اور میرا پاکستانی نام صدف ہے۔۔”ذکیہ اور میں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ہم اپنے ملک کے نمائندے تھےاور ایک غیر ملکی ہم سے مدد مانگ رہا تھا تو یہ اس کی مدد نہ کرنا بد اخلاقی ہوتی۔۔اسائنمنٹ کا کام بعد کے لیے رکھ چھوڑا اور ہمہ تن گوش ہوگئے۔۔

پتہ نہیں وہ کیا پوچھنا چاہتی تھی۔۔کلاس کا لیکچر یاد نہیں تھا۔۔اے اللہ عزت رکھ لینا۔”۔”جی صدف۔۔آپ اپنا رئیل نام بتائیں”۔یہ سوا ل ذکیہ کی طرف سے آیا۔ “جی میرا نام میکانٹی ہے۔میں ٹوکیو سے آئ ہوں۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔میں یہا ں اورنٹیئل کالج میں پڑھتی ہوں اور گرلز ہوسٹل میں رہتی ہوں۔ مجھے اردو پڑھنے کا بہت اشتیاق ہےاور میں اسے سیکھنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہوں۔،،۔اتنی گاڑھی اردو ۔۔ہم دونوں اس کے انداز پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔وہ کچھ گھبرا کرچپ ہو گئ۔۔ذکیہ کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔میں نے اسے گھورا اور جاپانی حسینہ کو یقین دلایا کہ اردو اس کے لب و لہجہ پر بہت اچھی لگ رہی ہے۔اس پر وہ ممنونیت سے مسکرائ جب ہم اکھڑے اکھڑے لہجے میں انگریزی بولتے ہیں تب وہ اسی طرح احساس برتری سےچور ہو کر مسکراتے ہیں اور اپنی زبان پر اتراتے ہیں ۔””میرا سوال یہ ہے کہ آپ لوگ رومن اردو کیوں استعمال کرتے ہیں؟۔۔اس میں کیا اچھائ ہے؟۔۔دنیا میں کوئ ملک اپنی زبان کے لیے غیر ملکی زبان استعمال نہیں کرتا۔۔کیا آپ اپنے بزرگوں کی قدر نہیں کرتے ہیں۔؟؟کیاآپ اپنے ماضی سے نفرت کرتے ہیں؟؟۔۔۔لیکن کیوں؟؟؟؟،،۔سوال تھے کہ برستے تازیانے۔۔۔میری زبان تالو سے چپک گئی تھی۔۔زکیہ اکثر ایسی بحثوں میں حصہ لیتی تھی سو وہ خم ٹھونک کر میدان میں اتری۔۔”دیکھئے جی۔۔انگلش ایک انٹرنیشنل زبان ہے۔ہم اس کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔۔اردو کی کیا ضرورت ہے۔۔”انگلش کی اہمیت سے کون انکار کررہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اپنی ہی زبان کے دشمن بن جائیں۔،،اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ “ہمارے ملک میں دو زبانیں ہیں۔۔زکیہ نے فخر سے کہا۔۔”یہ اور بھی غلط ہے۔۔اس سے ملک کی ترقی نہیں بلکہ تباہی ہو گی۔۔ہوگی کیا ہو چکی۔””۔۔””جاپانی حسینہ ایک کے بعد ایک دلائل دے رہی تھی۔۔”ہر ملک کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔اس کے بغیر وہ گونگا ہوتا ہے۔۔اسے گونگا ہی سمجھا جاتا ہے اور آپ کاملک گونگا ہے گونگا””۔اس پر زکیہ بھی لب بھینچ کر خاموش ہو گئ۔۔”اردو بہت کم عمر زبان ہے۔۔اس کے اندر ہر بڑی سے بڑی صوت اور چھوٹی سے چھوٹی آواز اپنا مکمل مفہوم دیتی ہے۔۔یہ باآسانی اعلی ترین تعلیم کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔۔شروع میں کچھ عرصے کےلیے انگلش اصطلاحات استعمال ہو سکتی ہیں۔۔۔یہ بہت آسان زبان ہے لیکن آپ لوگ اس کا قتل عام کرر ہے ہیں۔۔””ارے کوئ اردو کے دشمنوں کو خبر کرے کہ ایک غیر مسلم اورغیرملکی لڑکی اردو کو آسان زبان کہ رہی ہے۔۔”قتل عام!!!؟؟۔”ذکیہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔”وہ کیسے؟؟۔

۔”کیا یہ حقیقت نہیں کہ پچھلے دس سالوں میں آپ مطالعہ کرنے کے عادی نہیں رہے۔،،،،۔ ۔

ہاں۔یہ حقیقت ہے۔،، ہم نے شر مندگی سے کہا۔

موبائل پر سارا کام کرتے ہیں۔،،اس لئے۔۔

“”۔”آپ کو پتہ ہے کہ میری بہن شزوكا انڈیا ہندی سیکھنے کے لیےگئ ہوئ ہے۔۔اس کی ٹرم پوری ہونے والی ہےکیونکہ انڈیا میں 200 سے زائد ہندی ٹی وی چینل ہیں جو چاہے مووی چلائیں یا ڈرامہ،خبریں ہوں یادستاویزی فلم،یا کارٹون ان سب میں صرف ہندی زبان ہی استعمال ہوتی ہے۔ سننے میں ،بولنے میں ،لکھنے میں،اور پڑھنے میں :جس سے بڑی تیزی سے نہ صرف زبان سیکھ رہی ہے۔۔وہ تیزی سے عوامی زبان سیکھ رہی ہےمگر میں کیا کروں؟۔ میں کیسے سیکھوں؟۔۔آپ لوگ تو بات چیت میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہیں۔۔حتی کہ بل تک اسمبلیوں میں پاس ہو جاتے ہیں۔۔آخر کیوں آپ احساس کمتری کا شکار ہیں۔۔کیوں۔؟؟؟پاکستانی قوم دنیا کے تمام افراد سے 80 فیصد زیادہ ذہین وفطین ہیں۔آپ لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو انگریزی نے زنگ لگا دیا ہے۔۔”” میں نے شرمسار ہو کر سر جھکا لیا۔۔غلط وہ نہیں ،غلط اور قصوروار تو ہم تھے جنہوں نے نظام تعلیم کو غلط بنیادوں پر اٹھایا۔بل ک ہمارے سروں پر مسلط وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیشہ پاک سرزمین کے ساتھ غداری کی،دشمنوں کو خوش رکھا اور غیر وں کا نصاب اس نظریاتی مملکت پر مسلط رکھا۔۔تعلیم ماضی پر فخر اور مستقبل میں شاندار ترقی سکھاتی ہےاور زبان اپنا دائرہ اثر پھیلاتی ہے۔۔دنیا کا کلاسیکی ادب اپنی زبان میں منتقل کر کےتفہیم،تجزیہ اور اخذوترجمہ سے زبان کے امکانات اجاگر ہوتے ہیں۔۔زبان احساس خودی سکھا تی ہے اور ہمارے پاس بےسمتی ،نقالی اورمرعوبیت کے سوا ہے ہی کیا۔۔اسے کیا پتہ کہ اس ملک میں عوام وخواص میں کتنا تضاد پایا جاتا ہے۔۔انگریز تو چلے گئےلیکن ان کاکام کالے انگریزوں نے سنبھال لیا جنہوں نے بے دردی سے اس ملک کے وسائل کو نہ صرف لوٹا،کھسوٹا،نوچا اور برباد کیا ہے۔۔بلکہ ایک بار پھر اسے غلامی میں دینے کا ارادہ کر چکے ہیں۔۔”آپ بتائیے کہ برصغیر کے مسلمانوں نےاردو کے لیے پاکستان لیا تھا تا کہ دین،مذہب،تاریخ،ثقافت ، اقداروروایات کا تحفظ ہو سکے۔اسی لیے انہوں نے اپنے جمے جمائے کاروبار چھوڑے تھے،خالی ہاتھ آگ و خون کے دریا پار کیے تھے،سر کٹواءے تھے،عزت وعصمت کے نذرانے دیے تھے۔کیا اس لئےکہ آپ لوگ اردو کو ہندی میں لکھیں؟؟؟رومن رسم الخط اگر کام یاب ہوتا تو ترکی بہت ترقی کرتا!مگر جب اس نے اپنی زبان ترکی کو اہمیت دی تو وہ تیزی سے ترقی کرنے لگا اور آج دنیا اس کی فلموں کو آسکر ایوارڈ دینے پر مجبور ہو گئ ہے۔””۔ہم ہل نہیں سکے۔۔ہم اپنے سامنے اس شعلہ جوالہ کو بھڑکتے دیکھ رہے تھے جسے اس اردو سے عشق تھا جو ہماری پہچان تھی مگر ہم رومن الخط پر اردو کی بلی چڑھا رہے تھے۔۔۔”کیا تمہاری کبھی کسی نے اتنی بے عزتی کی ہے؟؟؟،،۔ذکیہ نے کھج کھا کر پوچھا۔۔یہ سوال ذکیہ ہی کر سکتی تھی۔۔اسے ہمیشہ الٹی باتیں سوجھتی ہیں۔۔ سر کی ڈانٹ کے جواب میں یہی پوچھنے کی ہمت کرتی تھی کہ سر آپ چاکلیٹ کھائیں گے۔۔”کیا آپ آزادہیں؟؟؟آزادی تو اپنے ہیروز کی قربانیوں کو خراج تحسین دینے کانام ہے۔اس امانت کی حفاظت کا نام ہے جو شہدا نے آپ کے سپرد کی ہے۔آپ کیا صرف پوں پاں کو آزادی سمجھتے ہیں۔”اف۔۔نرم گرم الفاظ اورتیزاب لہجہ۔میرے اللہ!!!میری نہیں پورے پاکستان کی پیشانی ملک دشمن پالیسیوں کی وجہ سےعرق آلود تھی۔واپسی پر ہمارے قدم بہت بوجھل ،نڈھال اور مضمحل تھے۔۔

حصہ