لکھا اپنی موت کا سہرا

لکھا میں نے اپنی موت کا سہرا ہے
میری سوچ کے دروازے پر پہرہ ہے

لاشیں تو دیتی ہیں مجھ کو آوازیں
بندہ میرے اندر گونگا ، بہرہ ہے

مجھ سے میرے دیس کی حالت مت پو چھو
میرے دل کی تختی میرا چہرہ ہے

اپنے کل کے خوف سے آنکھ نہیں لگتی
زخموں میں اک ہے بہت، جو گہرا ہے

کیوں کر دیس کے زخموں کو میں سوچوں گل
مجھ میں خون کا دریا بھی تو ٹھہرا ہے