فی زمانہ نوجوان نسل کی دین بےزاری نے ہر صاحب فہم وبصیرت کوحیرت وپشیمانی میں مبتلاکررکھا ہے۔غیروں کی کارستانیوں اوراپنوں کی حماقتوں نے، ہمیں اس افسوناک صورتحال سےدوچارکیاہے۔میرا موضوع دوسراسبب ہے۔
دیندارطبقےکی ناکامی کی تین اہم وجوہات ہیں۔
اول: قرآن وسنت سےبراہ راست فیض یاب نہ ہونا۔
دوم: کردارکی پسپائی۔
سوم: ظاہری اعمال کوترجیح دینا۔
قرآن وسنت سےدوری؛مختلف تبلیغی گروہوں نے قرآن وسنت سےبھی بڑھ کراپنےاساتذہ کی تعلیمات کواہمیت دےرکھی ہے۔بدلتےہوےحالات کاساتھ دینا، کسی کتاب کےبس کی بات نہیں۔ مستقبل کےپردے میں جھانک کراسکےمطابق رہنمائی کردیناکسی غیرنبی کےلیےقطعاناممکن ہے۔قرآن مجیدکےاندر قیامت تک برپاہونےوالےہرفتنےسےکامل بچاؤکاواضح راستہ موجودہے۔
آج کانوجوان ہرمعاملےمیں دلیل کاطلبگار ہےاورقرآن میں دلائل کثرت سےموجودہیں۔البتہ اگر کوئی شخص پہلےسےبعض تخیلات کوذہن میں راسخ کرچکاہواورانکےمطابق قرآن کوڈھالناچاہےتواس نےتوخوداپنےلیےہدایت کادروازہ بندکرلیا۔
اللہ تعالیٰ نےانسانوں کی رہنمائی کےلیےکتاب نازل کی اوراسکےساتھ معلم بھی مبعوث فرمایا(النحل:۴۴)۔
حجة الوداع کےموقع پرامت کونصیحت کی گئی تھی کہ دوچیزوں کوتھامےرکھناکبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ایک قرآن اوردوسرےسنت۔امت نےدونوں کوخیرباد کہاتوگمراہی اسکامقدربن گئی۔جس چیزکےلیےلوگ محنت کرتےہیں اسےپالیتےہیں۔لوگ دین کےلیےمحنت کرنےپرآمادہ ہی نہیں۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتویٰ ہےازل سے
کہ ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
کردارکی پسپائی؛جب مکےمیں کوئی بھی اسلام کا نام لیوانہیں تھا،ہرطرف بت پوجےجارہےتھے۔ایسےشدید اجنبی ماحول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس تین عظیم ہتھیارتھےجن کاتوڑکافروں کےبس بات نہیں تھی۔١۔ قرآن مجیدکےدلوں کوچھو لینےوالےٹھوس دلاءںل۔٢۔ کردارکی قوت۔٣۔ گفتگوکابے مثل سلیقہ۔
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ اپنےنبیﷺ کومخاطب کرکےفرماتےہیں کہ اگرآپ تندخواورسخت مزاج ہوتےتولوگ آپکوچھوڑکرچلےجاتے(آیت١۵٩)۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں کےاخلاق وکردار سےمتاثرہوکرلوگ دین سےوابستہ ہوئے تھے۔
ہمارےہاں بہت سےداعی حضرات نصیحت کی مشین بن چکےہیں۔وہ سمجھتےہیں کہ انہیں لوگوں کوٹھیک کرناہے۔ خالانکہ ٹھیک تومجھےاپنےآپ کو کرناہے۔ دوسروں تک توحکمت و دانائی اورنرمی ومہربانی سےبات پہنچانی ہےاورانکی ایذارسانیوں پرصبرکرناہے۔
دینی مدارس میں بجوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پرانکی خوب خبرلی جاتی ہےاوراکثربےدردی سےانہیں کنٹرول کیاجاتاہے۔اس رویےکےباعث کاری حضرات کےساتھ ساتھ وہ قرآن سےبھی دورہو جاتےہیں۔بہت سےباعمل اورمخلص مبلغین بھی اپنے جھگڑالوپن اورعدم دانائی کی بدولت دوسروں کی دین بےزاری کاباعث بن جاتےہیں۔بھلااس شخص کی بدنصیبی کاکیاکہناجسکی حماقتوں کےباعث لوگ دین ہی سےدورچلےجائیں۔
ظاہری اعمال کوترجیح دینا؛ایمان کی کمی دراصل ہربرائی کی جڑہے۔ایمان کےبغیرعمل صالح دراصل نقش برآب ہے۔ہمارےہاں ظاہری اعمال پربہت زوردیاجاتاہے۔ مثلاٙٙ ڈوپٹہ لو،نمازپڑھووغیرہ۔جڑکےاندرچھپی خرابی کی اصلاح کی کم ہی فکرکی جاتی ہے۔برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔
تیرہ سالہ مکی قرآن میں عقائد کی مضبوطی پرزوردیاگیااوردس سالہ مدنی قرآن میں بھی احکام کےساتھ ساتھ کثرت سےتوحیداورآخرت کی یاددلائی گئی۔دراصل کردارکی تشکیل فہم وشعورپرہوتی ہےاورفہم وشعورکی تعمیرمیں عقیدےہی کوسب سےبڑھ کراہمیت حاصل ہے۔
یہاں عقیدہ ہی مختلف شکوک وشبہات کاشکارہوکرغیراہم ہوگیاہےیہاں تک کہ اسکومان لینایاانکارکردیناتقریباًیکساں ہوچکاہے،ایسےماحول میں منافقانہ ذہنیت ہی پروان چڑھ سکتی ہےاورعملاً بھی یہی مناظرہرطرف بکھرے ہوےہیں۔
ہمارےہاں برائی کوبہت آرائش اورخوبصورت دلائل کےساتھ پیش کیاگیاہے۔جنت کی سچی تڑپ اور دوزخ کابےپناہ خوف ہی ان فتنوں سےبچاؤکا سبب بن سکتاہے۔