شہر کے بہت بڑے بزنس مین سیٹھ اکرم کا بنگلہ آج بقعہ نور بنا ہوا تھا کیونکہ ان کے اکلوتے بیٹے کے ولیمے کے سلسلے میں پورے’ اکرم ولا” کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ شادی کی تقریب تو پچھلے ایک مہینے سے جاری تھی کبھی ڈھولکی، کبھی مایوں،کبھی مہندی، کبھی بیچلرز پارٹی کے نام پردونوں ہاتھوں سے پیسہ لٹایا جا رہا تھا۔
ولیمے کی تقریب کے لئے ملک کے نامور بزنس مینوں کے علاوہ مقتدر حلقوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن میں خاص طور پر “وزراء” بھی شامل تھے ۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ ساتھ ان کی تفریح طبع کی خاطر نامور گلوکاروں اور جگت بازوں کو بھی بھاری معاوضہ دے کر بلایا گیا تھا یعنی داد و دہش کے تمام لوازمات رکھے گئے تھے۔ لوگ ہنستے مسکراتے چہرے لیے آتے اور سیٹھ صاحب کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو جاتے۔
ایسے میں ایک مفلوک الحال شخص نے اندر آنے کی کوشش کی تو گارڈز نے اسے دروازے پر ہی روک لیا ۔لوگوں نے پھر اس کی روتی ہوئی آواز سنی جو دھائیاں دیتے ہوئے کہ رہا تھا “سیٹھ اللہ سے ڈرو ، تین مہینے سے تم نےہم مزدوروں کو تنخواہ نہیں دی ،ہمارے گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں، بچوں کے اسکول کی فیس نہیں گئی تو انھیں اسکول سے نکال دیا گیا ہے، ہمارے بوڑھے والدین علاج کے بغیر مر رہے ہیں اور تم اپنے گھر میں رنگ و نور کی محفل سجائے ہوئے ہو! کچھ تو خدا کا خوف کرو، ہم نہ تم سے بھیک مانگ رہے ہیں نہ قرض ، ہمیں ہماری تنخواہ تو وقت پر دے دو اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ گارڈز نے سیٹھ کے حکم پرکس طرح دھکے مار مار کر اس شخص کو لہو لہان کر دیا۔
یہ صرف ایک مزدور کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں چھوٹے دکانداروں سے لے کربڑے بڑے سرمایہ داروں تک ایسے لا تعدادسیٹھ اکرم موجود ہیں جو اپنے ملازمین کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے فارم ہاؤسز میں شیر ، ہرن اور زرّافے پالے ہوئے ہیں جنہیں گوشت، سیب، کیلےاور نہ جانے کیا کچھ کھلایا پلایا جاتا ہے۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہےجب یہی سرمایہ دار یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ان کے حقوق کے لیے بڑے بڑے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جن مزدوروں کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے وہ بیچارے تو اس دن بھی بیلچے، پینٹ اور برش لے کر دیہاڑی کے انتظار میں فٹ پاتھ پر بیٹھے نظر آتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے شام کو ان کے اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لے کر جانی ہوتی ہیں بقول شخصے
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس مقصد کے پیش نظر یوم مئی منایا جاتا ہے اس کا شعور اُجاگر کیا جائے مزدور بھی انسان ہیں ان کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے، ان کا جائز حق انہیں دیا جائے، ان کو زندگی گزارنے کے لیے مختلف سہولیات دی جائیں سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی تنخواہ / مزدوری وقت پر ادا کر دی جائے یہ تو وہ مظلوم اور معصوم لوگ ہوتے ہیں جو تھوڑے میں بھی خوش رہنے کا ہنر جانتے ہیں انہیں سونے کے لیے نہ آرام دہ بستر کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی نیند کی گولی کی۔
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے