کسی بھی ریاست میں معیشت کو ریڑھ کی ہڈی کی مانند تصور کیا جاتا ہے کیونکہ معیشت سے ملک میں ترقی اور خوشحالی آتی ہےبہت ماہرین کہتے ہیں کہ معیشت تو ریاست کا ستون ہے جس کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی اور معیشت کو بہتر بنانے اور ملک میں خوشحالی لانے کیلیے اعلیٰ سطح پر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔
ان پالیسیوں میں ریاستی معاملات کے ساتھ دوسری ریاست سے تعلقات ہوتے ہیں جو بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اسی مقصد کے لیے ہر ریاست کی کوشش ہوتی ہے کہ ان خاص طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات ہوں اس سے ریاست کو ایک تو بارڈر کی ہائیپو ٹینشن کی پریشانی سے محفوظ بنایا جاتا ہے دوسرا ملک میں جلد خوشحالی آتی ہے جس سے ملک ترقی کرتے ہوئے دنیامیں اپنا نام روشناس کرواتا ہے اور دنیاکی توجہ اپنی طرف کرتا ہے ۔اب یہاں بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی بھی ہر سطح پر یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے جائیں اور ان کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے تا کہ معیشت کے ساتھ ملک میں امن و امان کو بھی برقرار رکھا جائے جس کے لیے لازمی ہے سیاسی عدم استحکام جس کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
جمہوریت کی اولین کوششوں میں سے ایک پڑوسی ممالک کی توجہ اور ان کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہوتے ہیں پاکستان کی جمہوری حکومت نے اس کے لیے بہت اقدامات کیے ہیں جو قابل تعریف ہیں ، ان اقدامات میں ملکی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے دوستانہ تعلقات پر ترجیح دینا شامل ہیں اسی حوالے سے بات کرتا چلوں کہ پاکستان کی کل تجارت کا حجم جو اس دور حاضر میں ہے 1.3 بلین ڈالر ہے ، جو کہ نا ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا کی اس وقت کل تجارت جو صرف ایشیائی ممالک میں 22.25 بلین ڈالر ہے ، اگر ہم بات کرتے ہیں انٹرا ریجن آرگنائزیشن کی تو سارک کے ساتھ آسیان کا نام شامل ہے اس کے ساتھ برکس پھر شنگھائی کوآپریشن (ایس سی آو) شامل ہیں ۔سارک جو کہ انٹرا ریجن آرگنائزیشن ہے جس کا تعلق صرف ایشیائی ممالک سے اس کی کل تجارت کا حجم 23 بلین ڈالرز تھا لیکن بدقسمتی سے زیادہ سے زیادہ 3 فیصد تجارت سارک کے زریعے سے ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کر رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کو انڈیا کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے یا پھر اس کے برعکس ہم بات کرتے ہیں دوسرے پڑوسی ممالک کی جس میں چین ، افغانستان اور ایران شامل ہیں تو چین کے ساتھ ہماری تجارت جاری ہے ، جبکہ افغانستان کے ساتھ 1.023 فیصد ہے جس کو کم از کم 15 بلین ڈالرز تک ہونا لازمی ہے یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ پاک افغان تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ہماری ٹرانزٹ ٹریڈ کو کتنا چیلنج ہے ۔؟اب بات کرتے ہیں پاک ایران کی جس میں اس وقت بڑی معرفت دیکھنے میں آئے جب ایرانی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں تجارتی معاہدہ اہم نکتہ تھا جس پر پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں بہت خوش آئند بات ہے اور قابل تعریف بھی کہ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں جس سے دونوں ملکوں میں خوشحالی کا نیا باب کھلے گا۔
اس دورے میں ایرانی صدر اور پاکستان کے ساتھ 10 بلین ڈالرز کی تجارت کو بروکار لانے میں بات چیت کی گئی ایسا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو اپنی تجارت کو بڑھانے میں کافی مدد ملے گی ۔پاکستان کو درپیش مسائل میں تجارت بڑا چیلنج ہے جس میں سیاسی عدم استحکام کا نا ہونا شامل ہیں جس سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں تجارت کرنے کیلیے آمادہ نہیں ہوتے اس کے علاوہ پاکستان کو بجلی کے فقدان کا بھی چیلج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، جبکہ دوسری طرف کلائیمیٹ کے بڑھتے ہوئے اثرات سے پاکستان کی ایگریکلچر بہت متاثر ہو رہی ہے تو ان سب خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو آگے بڑھنا ہے جو انتہائی مشکل طرین نظر آتا ہے لیکن ہمیں جو وقت کی ضرورت ہے وہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانا اور ان کے ساتھ تجارت کے حجم کو بڑھانا ہے ۔