سردار بیگم! ( پانچ سالہ بیٹے کے بال بناتے ہوئے) چل بیٹا میں تجھے اسکول میں داخل کروا کر آوں میرا اچھا بیٹا؛ اسکول جائے گا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا۔
سردار بیگم کی طبیعت پچھلے کئی مہینوں سے خراب تھی شوہر بزنس میں مصروف رہتا تھا وہ خود بھی تعلیم یافتہ،نیک اور اسکول میں تدریس کا کام انجام دے چکی تھی یہی وجہ تھی کہ اپنے بیٹے کو بھی ایک تعلیم یافتہ اور کامیاب انسان بنانا چاہتی تھی لیکن نہ جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے مشترکہ بڑا خاندان تھا اور اس کا بیٹا اس خاندان کا پہلا بیٹا تھا؛ اسلیے وقتاً فوقتاً وہ اسے کوئی نہ کوئی نصیحت کرتی رہتی تھی۔
سردار بیگم؛ بیٹا تو اس بڑے گھر کا بیٹا ہے جن کا تعلق اولیاء اللہ سے رہا ہے ہمارے اس پاس بڑی گندگی ہے اس گندگی سے تجھے اپنے آپ کو بچانا ہے (حبیب ماں کو بڑی حیرانی سے دیکھتا رہتا)۔ تو اس خاندان کا بڑا بیٹا ہوگا اسلیے تیرے اوپر ان سب کی بھی ذمہ داری ہوگی؛غرض کہ وہ اپنے ننھے بچے کو اکثر اس قسم کی نصیحتیں کرتی رہتی۔
اس دن سردار بیگم کی طبیعت بہت خراب تھی لیکن وہ حبیب کو اسکول کی چھٹی کروانا نہیں چاہتی تھی وہ دوسری کلاس میں پہنچ چکا تھا اپنی پڑھائی میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیتا تھا وہ جیسے تیسے کرکے بستر سے اٹھی اسے اسکول کے لیے تیار کیا ساتھ ساتھ اسے نصيحتیں بھی کرتی جا رہی تھی ہمارے آس پاس جو گندگی ہے اس سے تجھےاپنے آپ کو بچانا ہوگا؛ حبیب پہلے سے سمجھدار ہو چکا تھا ماں سے سوال جواب کرتا کہ وہ گندگی کیا ہے وہ بڑے عمدہ اور اسان طریقے سے اسے سمجھاتی کہ گندگی کون کون سی برائیاں ہیں۔ جن سے اپنے کو بچانا ہے حبيب ماں کی کچھ باتوں کوسمجھتا اور کچھ نہیں سمجھتا لیکن گردن ضرور ہلاتا، اس نے رخصت کرتے بیٹے کو بہت پیار کیا اور بہت ساری دعائیں دی، کسے معلوم تھا کہ حبیب کی اپنی ماں سے یہ آخری ملاقات ہوگی، اسکول سے واپسی پر ماں کا بے جان جسم اسکی نظروں کے سامنے تھا اور معصوم ذہن میں ماں کی نصیحتوں کی گونج تھی جس نے تمام زندگی اسکی رہنمائی کی۔
جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اس کے سامنے آگہی کے دروازے کھلتے گئے اس نیک ماں کی دعائیں تھیں یا نصیحتیں تھیں جو اسے ہر گھڑے میں گرنے سے بچاتی رہیں؛
وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن گھریلو معاشی حالات کی بناء پر اسے تعلیم ادھوری چھوڑ کر باپ کی بیماری کی وجہ سے اسکا کاروبار سنبھالنا پڑا کیونکہ ماں کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی کہ تو اس گھر کا بڑا بیٹا بنے گا اس گھر والوں کی ذمہ داری نبھانا، ایک بڑا مشترکہ خاندان اس کے فیصلے کا منتظر تھا لہذا اسنے دل پر جبر کرکے باپ کا ڈوبتا کاروبار سنبھالا سبحان اللہ؛ رب العزت نے ہر قدم پر آسانیاں فرمائیں کاروبار ترقی کرتا گیا تقریباً سارے گھر کی کفالت کی ذمہ داری حبیب کے کاندھوں پر تھی جسے وہ بخیر و خوبی انجام دے رہا تھا ۔
شعور کے دروازے کھلے زندگی کا سفر آگے کی طرف بڑھنے لگا تو اسے اپنے اس پاس بہت سی خوشنما برائیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کے دوست بھی ان برائیوں میں ملوث نظر آئے جو اسے بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے لیکن ہر بار ماں کی نصیحت ڈھال بن جاتی؛ کہ؛ تیرے چاروں طرف گندگی کے ڈھیر ہیں اس گندگی سے تجھے اپنے آپ کو بچانا ھوگا؛ جوانی روپیہ پیسہ آزادی سب تھا، لیکن حبیب نے ہر برائی کو اپنی ذات سے دور رکھا
الحمد للہ بیوی بھی نیک اور اسکے نیک اعمال میں معاون ثابت ہوئی، حقوق اللہ کی پاسداری، نیک سیرت کی وجہ سے نہ صرف اسکے تمام کاموں میں آسانی ہوئی بلکہ دلی سکون بھی میسر ہوا نیک اولاد عزت دولت سب ہی اللہ نے نوازے واقعی میں من کی دنیا من کی دنی، اس من کی دنیا نے انکی دنيا اور آخرت سنوار دی۔
جس دن اس کا انتقال ہوا سخت کڑی دھوپ تھی، شعلے برساتا سورج، مگرجیسے ہی جنازہ اٹھایا گیا لوگ حیران کہ کس ولی کی جنازہ ہے آسمان سے مینہ برسا اور اس زور کی بارش ہوئی کہ لوگ دیکھتے رہ گیے، سبحان اللہ انکے چہرے پر ایک نور تھا جو اس بات کی گواہی تھا کہ ان کی آخرت بھی اسی طرح پرنور ہوگی، ان شاءاللہ۔
ایسے اللہ والے لوگ نہ صرف اپنی زندگی میں اجالے پھیلاتے ہیں بلکہ حقوق العباد کی بھی پاسداری کرتے ہیں بیشک ایسے لوگ دوسروں کی رہنمائی کے لئے ایک مثال ہوتے ہیں۔