آہ! کس کی نظر لگ گئ ہے روشنیوں کے شہر کراچی کو، ہمارا پیارا شہر جو آج سے چند دہائیوں پہلے عروس البلاد کہلاتا تھا، جہاں لوگ بے خوف و خطر راتوں کو بیٹھکیں کیا کرتے تھے،خواتین آرام و سکون سے بچوں کے ہمراہ روزمرہ کی خریداری کے لیے بازاروں کا چکر لگایا کرتی تھیں۔ موبائل اتنے عام نہ تھے لہذا یہ بھی خوف نہ تھا کہ کوئی موبائل چھیننے کی کوشش میں مار ڈالے گا ۔لڑکے بالے ٹائر کو سڑکوں پر لکڑی کی مدد سے چلاتے چلاتے دور دور کا چکر لگا یاکرتے تھے ،چھوٹے بچے محلے کی گلیوں میں خوب کھیلا کرتے تھے نہ بچوں کو کوئی خوف تھا کہ اغوا کر لیے جائیں گے اور نہ ہی کسی طرح کی ہراسمنٹ کا ڈر تھا ۔اس کے بعد وقت نے انگڑائی لی اور کراچی لوٹ کا مال بن گیا ہر کوئی اسے نوچنے اور کھسوٹنے میں لگا ہوا ہے اس کی حالت اب اس ماں جیسی ہے جو دس بچوں کو پال پوس کر جوان کر دیتی ہے مگر ان بچوں میں سے کوئی بھی اسے own نہیں کرتا تبھی تو کراچی اب لاوارث شہر بن چکا ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں اب یہ مکمل طور پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔
روشنیوں کے شہر میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے رواں برس یعنی 2024 میں اب تک 61 افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں صرف رمضان کے مہینے میں21 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔کیا جرم تھا ان معصوم لوگوں کا؟ کیا اے ٹی ایم سے اپنے حق حلال کی تنخواہ نکالنا جرم ہے ؟کیا گھر سے باہر سودا سلف لانے کے لیے رقم لے کر جانا جرم ہے؟ کیا اپنے ہی گھر کے باہر موبائل پر بات کرنا جرم ہے ؟کیا سیلون میں موبائل ساتھ رکھنا جرم ہے ؟کیا دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں بیٹھ کر چائے پینا جرم ہے ؟ہاں اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو یقیناً یہ سب جرم ہے کیونکہ آپ کو نہیں پتہ کون ,کب اچانک سامنے آ کر پستول تان لے اور آپ سے موبائل اوررقم سب کچھ چھیننے کے بعد گولی بھی مار کر چلا جائے ۔کہاں ہے ریاست؟ کہاں ہے انتظامیہ؟ کیوں ان لٹیروں کو لگام نہیں دی جاتی؟ وجہ ہم سب جانتے ہیں کہ۔۔۔۔ محافظوں کی ملی بھگت کے بغیر کبھی بھی جرائم کا ارتکاب نہیں ہوتا معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جن کا کام کرائم کنٹرول کرنا ہے وہ خود ہی کرائم پارٹنر بنے بیٹھے ہیں کیونکہ ایسے بہت سے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ سامنے ہی پولیس کی موبائل کھڑی ہوتی ہے مگر وہ ڈاکوؤں کو نہیں پکڑتی اور اگر کبھی عوام ڈاکوؤں کو پکڑ کر ان کے حوالے کر بھی دیں تو دوسرے یا تیسرے دن وہ پھر سے آزادانہ باہر دندناتے پھرتے ہیں۔
آج حالت یہ ہے کہ خواتین کی جان اس وقت تک سولی پر لٹکی رہتی ہے جب تک ان کے بچے اور شوہر خیریت کے ساتھ گھر واپس نہ آ جائیں۔ آخر اہل کراچی کا قصورکیا ہے ،کیا وہ گھر سے نکلنا بند کر دیں،کب تک ان کے اوپر خوف کی تلوار لٹکتی رہے گی ۔افسوس! ارباب اختیار کے پاس سوائے زبانی کلامی دعووں اورجھوٹے وعدوں کے سوااس بات کا کوئی جواب نہیں ۔ذرا سوچیں توسہی ان بچوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جن کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا گیا، ان خواتین کے دل کیسے دھڑکتے ہوں گے جن کے سہاگ دن دہاڑے اجاڑ دیے گئے، ان ماؤں کی آنکھوں سے جاری اشک کیسے رکیں گے جن کے لعل کو ہمیشہ کے لیے ان سے جدا کر دیا گیا ،اس بوڑھے باپ کا سہارا اب کون بنے گا جس کا گھبرو جوان بیٹا ڈاکوؤں نے مار ڈالا بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنگل میں رہ رہے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پیروں میں تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو
سارا جنگل جاگ اٹھتا ہے
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا، جلیل و معتبر
دانا و بینا، منصف و اکبر
میرے اس شہر بے اماں میں بھی
ایسا جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر