حقوق العباد کی پاسداری

زینب — شوکت سے ! آپ کی تنخواہ اس مہینے بھی نہیں آئی ہے میری تنخواہ اور ٹیوشن کے پیسوں میں سے تین چار سو ہی باقی بچے ہونگے ، راشن وغیرہ تو ادھار پر آجاتا ہے لیکن ناشتہ وغیرہ ،ابھی پہلی تاریخ میں دوتین دن رہتے ہیں میری تنخواہ آنے میں بھی ابھی پانچ چھ دن لگ جائینگے اگر کہیں سے ادھار ،،خیر چھوڑیں ،میں ٹیوشن پڑھنے والے بچوں میں سے کسی کی امی سے کہتی ہوں اس مرتبہ ٹیوشن کے پیسے جلدی دے دیں –

زینب ابھی اسکول سے آئی تھی کہ دروازے پر دستک کی آواز آئی –

دروازہ کھولا، سامنے ناجیہ گود میں بچہ لئے اور دوسرے چار سالہ بچے کی انگلی پکڑے کھڑی تھی جو پریشان لگ رہی تھی،

زینب !– خیریت ؟

ناجیہ(جو زینب کی سسرالی رشتے دار تھی ) بھابھی آپ سے ایک کام تھا ،

زینب !– آو اندر آکر آرام سے بیٹھ کر بتاؤ ،پریشان لگ رہی ہو ،کیا بات ہے۔

ناجیہ !– شاہد کی طبیعت ایک ہفتے سے خراب ہے وہ کام پر نہیں جارہےہیں آپ کو تو معلوم ہے اسکا دھاڑی کا کام ہے گھر میں جو کچھ تھا ختم ہو چکا ہے۔ رات سے بچوں نے بھی کچھ نہیں کھایا ،اگر کچھ رقم ادھار مل جاتی تو ، میں آپ کو کچھ دنوں میں لوٹا دونگی ۔

زینب کے لئے یہ وقت ایک بڑا امتحان تھا وہ تو خود پریشان تھی ،لیکن اس نے دیکھا کہ ناجیہ کی گود میں دوسالہ بچے کے چہرے پر بھوک کے آثار تھے اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا ناجیہ کا چار سال کا بیٹا میز پر رکھے کیلوں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، _

اس نے دو کیلے اٹھا کر ان بچوں کو دیئے ناجیہ کو بٹھا کر وہ اندر کمرے میں گئی ، الماری میں سے پیسے نکالے چھ سو تھے ،اس نے سوچا میرے گھر میں دو تین دن کا راشن تو موجود ہے لہٰذا اس نے صرف ایک سو نکال کر باقی رقم ناجیہ کے ہاتھ میں رکھ دی ،میری بہن اس سے کام چل جائے گا؟

ناجیہ نے جھپٹ کر اس سے پیسے لے لئے ،بھابھی بہت بہت شکریہ، میں دال اور آٹا لیتی جاوں گی اور منے کے لئے ایک پاو دودھ بھی آجائے گا دودن تو نکل جائیں گے،

ناجیہ نے چلتے ہوئے آدھا کلو دودھ والا پیکٹ بھی زینبکے ہاتھ میں تھما دیا ۔

ناجیہ کے جانے کے بعد اسے سکون تو محسوس ہوا لیکن ساتھ میں یہ بھی پریشانی تھی کہ اگلے دن کا ناشتہ پھر چائے کے لیئے دودھ یہ سب کہاں سے آئیں گے ۔

وہ سوچ رہی تھی کہ ناجیہ کے سسرال والے تو بڑے آسودہ اور مالی حیثیت سے خوشحال ہیں انہیں اپنے بیٹے اور اسکے بچوں کی خیر خبر تو رکھنی چاہیئے، اسکی انکھیں نم ہوگئیں ،کیا معلوم شاہد بھائی نے دوائی بھی لی ہے یا نہیں، شوکت آفس سے آئے تو اُن سے کہوں گی کہ شاہد بھائی کی خیریت معلوم کرنے جائیں۔اچانک اسے یاد آیا ارے شوکت نے کہا تھا کہ کچھ بلوں کی رسیدیں نہیں مل رہی ہیں ڈھونڈ کر رکھنا ،اس نے بچوں کی طرف دیکھا وہ سو رہے تھے ابھی انکے قرآن پڑھانے والی آنٹی کے آنے کا وقت نہیں ہواتھا لہٰذا وہ الماری سے رسیدیں ڈھونڈنے لگی سب سے پہلے شوہر کے کوٹ کی جیبیں تلاش کیں تو اس کے ہاتھ میں سو سو کے چار پانچ نوٹ آگئے اسی طرح الماری کی درازوں سے بھی چھ سات سو نکل آئے ،یہ سب کہاں سے آئے، شاید کسی وقت میں رکھ کر بھول گئی ہوں ، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے شکر الحمدللہ، یہ رقم تو اس رقم سے بھی دگنی ہے جو اس نے ناجیہ کو دی تھی اسے استانی جی کی بات یاد آگئی دینے والے کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔

یہ ایک چھوٹا سا حقیقی واقعہ ہے جو میں نے اپ سب سے شئیر کیا،،،،

اللہ رب العزت نے تو ہم مسلمانوں کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن پاک میں بار بار ہمیں اپنے غریب، نادار، یتیموں، مسکینوں کی خبر گیری اور مالی مدد کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔

جیسا کہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر تین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے ( مال ) میں سے خرچ کرتے ہیں

اسی طرح قران پاک میں اور بھی کئی جگہ اللہ رب العزت نےایمان لانے والون کی خصوصیات بیان کی ہیں جو حقوق اللہ کی پاسداری کے ساتھ حقوق العباد کی پاسداری کرتے ہیں ،خصوصا اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے والوں کا زکر کیا ہے ۔یعنی صلہ رحمی اور بندوں پر خرچ کرنا ایمان والوں کی نشانی بتائی گئی ہے

زکواۃ ،صدقات خیرات اور ہدیہ، انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ رب العزت کی رضا کے مستحق ہیں

جس طرح قرآن پاک میں انفاق فی سبیل اللہ کابار بار ارشاد فرمایا گیا ہےمجھ ناقص علم کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کہ اللہ نے یہ حکم بار بار کیوں ارشاد فرمایا ہے ، یقینا اللہ مال دے کر اور نہ دے کر دونوں طریقوں سے اپنے بندوں کو ازما رہا ہے ، دونوں کو اس آزمائش میں اطاعت اللہ کی پاسداری کو یقینا ترجیح دینی ہے ،کیوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جو مال میں نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس طرح انسان کے اس تکبر کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ میں اور میرا مال ،اس پر صرف میرا حق ہے __صرف واحد اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں بھائی چارہ ،صلہ رحمی اور الفت محبت ہمدردی اجاگر کی جاسکتی ہے سبحان اللہ

ہمیں اپنے اس پاس ضرور نظر دوڑانی چاہئے کہ کوئی تکلیف میں تو نہیں کوئی بھوکا تو نہیں، کیونکہ سفید پوش لوگ کبھی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ایسے لوگوں کو خصوصا آپ خود تلاش کریں، یقینا انکی حالت پر نہ صرف آپکو ان سے ہمدردی ہوگی بلکہ آپ اللہ رب العزت کا بے اختیار شکر ادا کرنے لگو گے کہ الحمدللہ رب العزت نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ہمیں لینے والوں میں سے نہیں بلکہ دینے والوں میں شامل کیا ہےصرف اس ایک حکم کے پیچھے اللہ کی کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں ، اور اس حکم کی پاسداری کرنے والوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے نا صرف دنیا میں برکات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں اور سکون ملتا ہے بلکہ آخرت کا اجر بھی بے حساب ہے، دوسری طرف اللہ رب العزت غریب اور مفلس لوگوں کے لئے بھی روزی کے اسباب کھولتا ہے۔ سبحان اللہ