اندھیری رات کے آنسو

معاشرے میں پھیلے بیگاڑ، خرابیوں اور مسائل کے حل کیلئے ہم انفرادی طور پر کچھ نہیں کرسکتے، لیکن ہم کم از کم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں، اپنی خرابیوں کو ٹھیک کرسکتے ہیں ، اپنی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھالتے ہوئے ، ریاستی قوانین کا احترام کرتے ہوئے ، اپنی شخصیت کو بہترین اخلاق کا نمونہ بناتے ہوئے اطمنان بخش زندگی گزار سکتے ہیں۔ اور پچھلے گناہوں کی کمی کوتاہیوں پر خوب توبہ استغفار کرتے ہوئے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خالق کائنات اللہ عزو جل کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ غفور و رحیم ہے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو لوگ اسکی بارگاہ میں جھکتے ہیں۔ جب ایک مسلما ن زندگی میں گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے ،ظلم کرتا ہے، لیکن وہ اللہ ربّ العزت کی بارگا ہ میں جھک جاتا ہے، راتوں کے آخری پہر اٹھ کر اپنی جبیں خالق کائنات کے سامنے جھکا کر اپنی عاجزی اور گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہے، سجدوں میں روتا ہے تو یقینا اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے، کیونکہ اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں۔

بقول شاعر

ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں

معاف کردینا بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خصوصی انعام ہے، اگر وہ ہماری نافرمانیوں پر سزا دے تب بھی اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام و احسان سے کوئی شخص فائدہ نہ اُٹھائے تو یقینا بد نصیبی کی بات ہے ۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ، انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔

(1 ۔ ندامت و شرمندگی)توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے ،اور بندہ پر عذاب الٰہی کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوص دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔

( 2 ۔ ترک گناہ و معصیت) توبہ کی دوسری شرط ترک گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، یہ احساس ترک گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ سے ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ گناہ کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘ (سورۃ النساء)۔ اس آیت مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔

(3 ۔توبہ پر پختہ رہنے کا عزم) بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لئے پکا عزم کرے کہ آئندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کیساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔

بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جڑ جانے کا نام ہے، گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہگار احساس گناہ سے بوجھل ہو گیا، محبوب سے شرم آنے لگی، عفو و بخشش کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، ایسی ہی توبہ مقبول ہوتی ہے۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہوجانا ممکن ہے لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد ستر بار بھی صدق دل سے معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی۔ لہٰذا ان سہل ترین شرائط پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اس قلیل زندگی کے ایک ایک لمحے کو نیکیوں سے قیمتی بنائیں اور جلداپنے گناہوں سے کامل توبہ کریں اس سے پہلے کہ توبہ کا وقت نہ رہے اور وقت قضاء آجائے۔