غزہ مسلسل اسرائیلی بمباریوں کی وجہ سے ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، ملبوں پر بے بس مسلمانوں کا بسیراہے،ہر طرف تباہی کی خاک اور بارود کا راج ہے، ساری مسجدیں شہید ہوچکی ہیں۔ فلسطین عالم اسلام کی بے حسی پر نوحہ کناں ہے۔ حدیث نبوی ؐہے کہ ’’مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم اسکا درد محسوس کرتا ہے‘‘۔ کیا اہل غزہ امت مسلمہ کے جسم کا حصہ نہیں ہیں ؟گذشتہ چھ ماہ سے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ خاموش ہے ،اسلامی ممالک کے ضمیربھی سوئے ہوئے ہیں۔
پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ روکنے کیلئے سلامتی کونسل کی قرار داد کی منظوری کے باوجودغزہ کی نسل کشی جاری ہے ۔چنانچہ سلامتی کونسل کی قرار داد کو ’’کچھ نہ ہونے‘‘ سے ’’کچھ ہونا‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ جن ملکوں نے اس پر دستخط کئے ہیں کیا انہیں یقین ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے مطالبہ کو، جو اس قرارداد کے ذریعہ کیا گیا ، تسلیم کرلے گا؟ اسرائیل اب تک کی تاریخ میں اس کونسل کی جتنی قراردادیں ٹھکرا چکا ہے ان کی فہرست کو سامنے رکھ کر سوچا جانا چاہئے تھا حقیقت تو یہ ہے کہ قرارداد کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش نہیں کی گئی اسی لئے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے والا امریکہ، یہ کہہ کر اس کے محدود اثرات کو بھی زائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ ’’بائنڈنگ‘‘ نہیں ہے یعنی اس پر عمل کیا جانا ضروری نہیں۔ جو ممالک اس کے حق میں ہیں وہ اسے بائنڈنگ قرار دے رہے ہیں اور امریکہ نان بائنڈنگ کہہ رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کے ماننے نہ ماننے سے پہلے ہی امریکہ نے روایتی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ وہ اسے تسلیم نہیں کرے گا۔
قرارداد منظور کرنے والے ممالک نفاذ کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے یقینامیٹنگ کرینگے مگر کب کریں گے؟ جس قرارداد کو کئی بار ویٹو ہونے کے بعد اب منظور کیا جاسکا اور اس محدود کار خیر کے انجام پانے تک غزہ بری طرح تباہ ہوچکا ہے اور اب تک کی جنگ 33ہزار سے زائد فلسطینیوں کو نگل چکی ہے۔ شہید بچوں کی تعداد 13 ہزار سے زیادہ ہے۔ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبنے سے 12ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ صہیونی حملوں میں 75ہزار کے قریب فلسطینی زخمی جبکہ سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔زخمیوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اب عمر بھر کیلئے معذوری کا سامنا ہے۔ ہزاروں خاندانوں نے اپنے بہت سے پیارے کو کھو دیا ہے اور بہت سے گھرانے پوری طرح ختم ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے ہلاک ہونے والے عزیزوں کو دفنا نہیں سکے کیونکہ انہیں جان بچانے کے لئے ان کی لاشیں گھروں میں، سڑکوں پر یا ملبے پر ہی چھوڑ کر نکلنا پڑا۔ ان حالات اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد منظور ہونے کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں۔
کیا یہ قرارداد صرف عالمی قانون، اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے اسرائیل کو روکنے اور سبق سکھانے کی کوشش تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ قرار داد کی منظوری سے چند گھنٹے قبل اس میں سے ’’مستقل‘‘ کا لفظ ہٹایا گیا جو مستقل جنگ بندی سے متعلق تھا۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ عالمی طاقتیں کس حد تک اسرائیل کی مزاج آشنا ہیں کہ کون سا لفظ اس کو گراں گزرے گا۔ اس میں اسلحہ کی فراہمی کو روکنے سے متعلق بھی کچھ نہیں ہے جبکہ امریکہ اسے فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی دْہرا رویہ تھا جس کے سبب اس سے قبل کی قرارداد کو چین اور روس نے ویٹوکردیا تھا ۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا۔ 2023 میں جنرل اسمبلی نے 15 اسرائیل مخالف قراردادیں منظور کی تھیں جو دْنیا کے دیگر ملکوں کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں سے زیادہ تھیں ۔ اس سے قبل 2022کی بھی یہی صورت حال تھی۔ فلسطینی اراضی پر یہودی بستیاں بسانے سے اسے بارہا روکا مگر اس نے روک ٹوک کو خود پرحاوی نہیں ہونے دیا۔عالمی عدالت میں اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ عالمی عدالت نے رواں برس جنوری میں اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کی حفاظت کیلئے اقدامات کرنے کاحکم دیا تھا لیکن اسرائیل نے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی۔حالیہ قرارداد کی منظور ی کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے خان یونس میں فلسطینیوں کے خیموں پر بم گرادیے، جبکہ اسرائیلی فوجیوں نے نصیر ہسپتال کا مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے جہاں مریضوں کو مسلسل فائرنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غزہ کے الشفا اسپتال پر حملے کے دوران غاصب صیہونی فوجیوں نے فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کر دیا۔غاصب اور وحشی صیہونی فوجیوں نے کئی خاندانوں کو پوری طرح سے ختم کر دیا اور پھر ان کی لاشیں جلا دیںتھیں۔ اسپتال، تعلیمی ادارے ،رہائشی علاقے ،سب کچھ تہس نہس کردینے کے بعد بھی اس کی بربریت میں کمی نہیں آئی، جو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ غزہ میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس کی بچی کھچی آبادی دْنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں روز و شب گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں فوری طور پر مکمل جنگ بندی نافذ ہونی چاہئے تاکہ اہل غزہ کو امدادی سامان میسر آسکے۔
غزہ کی تمام تر آبادی صاف پانی، غذا اور بنیادی چیزوں سے محروم ہے۔ خطے کا 60 فیصد ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔یہ جنگ غزہ کی 24 لاکھ کی آبادی کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے۔اگر اتنی بربادی کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس برادری کو انسانیت عزیز نہیں ہے۔ وہ دْنیا جسے غزہ کے بچوں کی فکر نہیں ہے۔خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے یومیہ 10بچے شہیدہو رہے ہیں۔1.7 ملین فلسطینی یعنی غزہ کی آبادی کا 75 فیصد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غذائی قلت کو غزہ میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ صہیونی ہٹ دھرمی ، شیطانیت کا سب بڑا ثبوت یہ ہے کہ غزہ کو تباہ کرنے کے لئے دو ایٹم بموں کے برابر 25ہزار ٹن بارود استعمال کیا جا چکا ہے ۔اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ گرفتار شدہ فلسطینیوں کو بھی شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے خلاف جان بوجھ کر ایسے اقدامات کئے گئے جن سے بچوں کی پیدائش رک جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قرارداد پر عمل درآمد کرواتے ہوئے جلد از جلد جنگ بندی کی جائے اور دنیا کی بڑی طاقتیں بالخصوص امت مسلمہ یکجا ہو کر اس کا دیرپا و پائیدارحل تلاش کریں۔