انسان اپنی زندگی میں کئ بار جیتا ہے اور کئ بار مرتا ہے۔لیکن اس کو ادراک نہیں ہوتا،وہ ہر گزرتے لمحے کو اور ہر بیت جانے والے لمحے کو آخری سمجھتا ہے،حتمی سمجھتا ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ہے،جو لوگ زندگی کے پیچ و خم سے جتنے زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ معاملات اور چیزوں کے اتنا ہی غیر حتمی اور غیر یقینی ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔
اس زندگی کے مختلف ادوار ہیں ،مختلف دوراہے ہیں،منفی نتائج کے غیر حتمی و غیر یقینی ہونے کا یقین انسان کو زیادہ سے زیادہ مثبت بناتا ہے ،امید عطا کرتا ہے،تاریک گوشوں سے روشن پہلو عموما وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں جن کی زندگی زیادہ نشیب و فراز سے گزری ہوتی ہے جن کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔
انسان کی زندگی کا پہلا وہ تجربہ جب وہ تارک الدنیا یا گوشہ گمنامی میں چلا جاتا ہے ،اس کے پہلے ریوائول کی راہ ہموار کرتا ہے کہ اس میں برپا ہونے والی جنگ سے جلد یا بدیر گزر کر وہ ایک نیا جنم لیتا ہے،نئے یقین نئے عزم نئے چہروں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور چلتا ہے،پرانے کسی خوف کی کوئی دیوار اس کے ساتھ نہیں ہوتی۔
لیکن اس مرحلے میں بھی بہت سے دکھ درد الجھنیں اس کے ساتھ چل سکتی ہیں کہ یہی زندگی کا حصہ ہے،انسان کو اپنے ارتقا کے اس عمل میں اکثر منزل کا سرا ملتا ہے نا نشان،وہ ایک نئی زندگی کی محفوظ چادر اوڑھ کر بے سمت ٹامک ٹوئیاں مارتا چلا جا رہا ہوتا ہے،ہر دو قدم بعد اسے کوئی امید کا سرا ملتا ہے پھر ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے،پھر گرہ سلجھتے سلجھتے الجھ جاتی ہےلوگوں کی باتیں بڑھتے چڑھتے سوالات میں اپنی زندگی کی راہ کا تعین کرنا اور اسی شش و پنج میں پھر کسی بڑی تبدیل کردینے والی صورت حال سے گزرنا گویا ایک دھماکا ہوا ہو اور نشان مل جائے کہ اب اپنے اصل کی جانب لوٹنا ہے،سارے کنکر پتھر راستے کے گڑھے ،کھائیاں ایک جانب سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں،لیکن یہ بھی زندگی کا ایک مرحلہ ہوتا ہے جہاں انسان کے ایک جز کی یا وقفے کی موت ہو کر نئی زندگی جنم لیتی ہے،نئی منزل کا سراغ ملتا ہے،اور اس تک پہنچنے کا راستہ بہت صاف ہو کر سامنے ملتا ہے،اس کے لیے فیصلے کی واضح جہت آسان ہو جاتی ہے،اور اب وہ عقل کے اس مقام پر ہے جہاں اسے دوسروں کی باتیں ،سوالات چبھتے نہیں ہیں ان کی روشنی میں اسے کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے،اس نے یہ جان لیا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے ؟کب کرنا ہے اور کیسے ؟اب اسے اپنی زندگی میں کہاں مقام کرنا ہے اور کہاں محض وقت طور پر پڑاو ،یہ ا س کا اپنا فیصلہ ہے،صاف شفاف راہ گزر،لیکن یہ راہ گزر جان توڑ دینے والی آزمائش سے گزر کر اور بار بار مرنے کے بعد ملتی ہے،یہ سلسلہ اس وقت تک جاری ہے جب تک موت کا فرشتہ روح قبض کرنے نہ آجائے۔
اس راستے میں ایک بات مزے کی ہے کہ اس میں سکون بہت ہے اور قرار بہت،امید بہت ہے اور آس بہت۔