ماحول اور عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

(علامہ اقبال)

ماحول کی خرابی یا اچھائی میں عورت کا کردار بہت اہم ہے۔ اسلام نے عورت کو چار حیثیتوں و رشتوں میں پسند کیا ہے۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی۔ یہی عورت کی فطری حیثیت ہے۔

ایک ماں کی حیثیت سے وہ انسان ساز ہے۔ اس اہم کام کا تقاضا ہے کہ وہ ہر وقت اپنی ڈیوٹی پر مستعد رہے۔ لہذا وہ چوبیس گھنٹے اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے لئے کار بند رہتی ہے۔ اس اہم ڈیوٹی کی انجام دہی اسے اپنی تمام ضروریات سے لاپرواہ کر دیتی ہے۔ انسان سازی حقیقت میں مشکل ترین اور اہم ترین عمل ہے جو ماں کے ذمہ ہے۔ اس حساس اور اہم ترین فرض کی ادائیگی کے لئے اسے زیادہ تر گھر کی چار دیواری کے اندر محصور رہنا پڑتا ہے۔ انسان سازی کا کام ماں کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ تو بچے کے لئے محبت کا سمندر اور عزت و شرف کا پہاڑ ہے۔ بچے کی پرورش میں اس کی قربانی لاثانی ہے۔

عورت کی دوسری حیثیت ایک بہن کی ہے۔ جو بھائی کیلئے سراسر پیار اور دعا کا سرچشمہ ہے۔ والدین کی غیر موجودگی میں بھائی اپنی بہن کی کفالت، پرورش اور تحفظ ناموس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

عورت کی تیسری حیثیت ایک بیوی کی ہے۔ بیوی ایسی نعمت ہے جس کے پہلو میں ازروئے قرآن سکون ملتا ہے۔ قرآن نے سکون دو چیزوں میں بتایا ہے۔ الله کی یاد میں اور نیک بیوی کے پہلو میں۔ انسان جب نکاح کرتا ہے تو میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ گویا معنوی طور پر نکاح سے پہلے وہ برہنہ ہوتے ہیں۔ نکاح کے بعد وہ ملبوس ہو جاتے ہیں۔ نکاح سے پہلے دونوں ایک چٹیل میدان میں بے لباس ہوتے ہیں۔ مگر نکاح کے بعد دونوں ایک مضبوط قلعے کے اندر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ بیوی دراصل شوہر کیلئے آرام محبت اور قربانی کا پیکر ہے۔

عبدالله بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا متاع (سامان) ہے، اور دنیا کے سامانوں میں سے کوئی بھی چیز نیک اور صالح عورت (بیوی) سے بہتر نہیں ہے۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1855]

عورت کی چوتھی حیثیت ایک بیٹی کی ہے۔ جووالدین کیلئے ایک رحمت ہے۔ وہ والدین جو بیٹیوں کی نیک پرورش کرتے ہیں تعلیم دلاتے ہیں اور اس کی شادی کسی نیک انسان سے کراتے ہیں۔ وہ قیامت کے دن جنت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے انتہائی قریب ہوں گے۔

حضرت سراقہ بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ

ایک مرتبہ الله کے رسول ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ’’اے سراقہ! کیا میں تمہیں سب سے زیادہ فضیلت والے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا: ’’ اے الله کے رسول ﷺ ،! ضرور بتائیے۔ ‘‘

آپؐ نے فرمایا: “تمہاری بیٹی تمہارے پاس لوٹ کر آجائے اور اسے کما کر کھلانے والا تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ہو”(مسنداحمد: 17586)

اسلام عورت کو انہی چار حیثیتوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہ باعزت و باوقار ہے، نہ ہی اسلام میں قابلِ قبول۔ امن و سکون، اطمینان و خوشگوار ماحول صرف ان معاشروں میں پایا جا سکتا ہے جہاں عورت کو ان ہی چار فطری حیثیتوں میں رکھا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے عورت اپنی اصل فطرت سے دور ہٹتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی حیثیت و پہچان کسی اور غیر فطری شکل میں ڈھونڈتی نظر آتی ہے۔ یہ عمل عزت کا مقام دلانے کی بجائے عورت کی شخصیت کا جنازہ نکالنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

مغربی معاشرے میں خاندانی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے۔ وہاں عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے نہیں پہچانا جاتا۔ وہاں تو اب عورت، عورت کی بجائے مرد کا روپ دھار چکی ہے۔ بسا اوقات اس کو وہ کام بھی کرنا پڑتے ہیں جو مرد بھی نہیں کرتے۔ گھر غیر آباد ہوتے جارہے ہیں۔ گھروں کو تالے لگے ہیں۔ خاندانی نظام نابود ہو چکا ہے۔ نتیجتاً میاں بیوی کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

اپنے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے بعد اب وہ مشرق کے خاندانی نظام کو بھی تباہ و برباد کرنا چاہتے۔ تاکہ عورت اپنی اصلی اور فطری حیثیت کھو کر ایک غیر فطری شکل اختیار کرلے۔ اس نیک کام میں مشرق کے چند زعماء اور معاشرے کے چند سرکردہ افراد گرمجوشی سے ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ دانائی اسی میں ہے کہ عورت کو اس تباہی سے بچایا جائے اور اسی فطری حیثیت میں رہنے دیا جائے جو الله و اسلام نے عورت کو عطا کی ہے۔

لڑکياں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

(علامہ اقبال)

حصہ