ماں ! (شوہر سے )
فاطمہ کو آگے پڑھنے کا شوق ہے وہ ماسٹر کرنا چاہتی ہے ،آپ کا کیا خیال ہے؟
عبد الرحمن ! ہمارے خاندان کی پہلی بچی ہے فاطمہ جو یہاں تک پہنچی ہے ابا میاں کو بھی اس کی مزید تعلیم حاصل کرنےپر اختلاف تھا پھر سارا خاندان،،اب اگر وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے گی تو لوگ باتیں بنائیں گے ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ فاطمہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،
اماں ! اپکی بات صحیح ہے مگر جب وہ کالج میں بھی داخلہ لے رہی تھی لوگوں نے کتنی باتیں بنائی تھی لیکن الحمدللہ ہماری بچی نے کبھی ہمیں شرمندہ نہ کیا بلکہ اب تو ہماری برادری کی لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے، انشاءاللہ ابھی بھی وہ ہمارا سر جھکنے نہیں دے گی اور تعلیم حاصل کرنا تو مرد اور عورت دونوں کے لئے ضروری ہے تعلیم وتربیت یافتہ ماں اپنی اولاد کی بھی بہترین تربیت کرسکتی ہے__
اس طرح بڑی مشکلوں کے بعد ابا فاطمہ کو یونیورسٹی میں پڑھانے پر راضی ہوگئے __
اماں ( فاطمہ سے)بیٹا بڑی مشکل سے اپکے ابا راضی ہوئے ہیں بس بیٹا ہماری عزت کا خیال رکھنا ،آپکا کردار وعمل اس خاندان کی لڑکیوں کے لئے ایسی مثال ہونا چاہئے کہ ان کے والدین بھی انہیں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خوشی سے اجازت دے سکیں __
خالا سکینہ ! مت ماری گئی ہے عبدالرحمن بھائی کی، بیٹی کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔
نرگس ! یونیورسٹیوں کا ماحول تو بڑا خراب ہے لڑکیاں اور لڑکے عیاشیاں کرنے جاتے ہیں بے حیائی سیکھنے جاتے ہیں اور لڑکیاں تو اپنے لئے بر(رشتہ) بھی ڈھونڈنے یونیورسٹی ہی جاتی ہیں۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں، اماں کے کانوں تک بھی یہ باتیں پہنچ رہی تھی وہ بیچاری پریشان ہوگئی، بیٹی کو نصیحتیں کرتی کہ بیٹا اپنی اور ہماری عزت کا خیال رکھنا جو دیا تم نے روشن کیا ہے اسے کبھی بجھنے نہ دینا۔
فاطمہ ! اماں کبھی بھی میں اپ کی اور خاندان کی عزت کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچاونگی اور دیکھئے گا اج جو لوگ باتیں بنا رہے ہیں کل یہ سب اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے سب سے اگے ہونگے انشاءاللہ۔ اج جو دیا ہم نے روشن کیا ہے یہ دیا کبھی بجھنے نہیں پائے گا۔
فاطمہ صبح بڑے بھائی کے ساتھ یونیورسٹی جاتی واپسی میں بھی اکثر بھائی جان ہی اسے یونیورسٹی سے لینے جاتے۔
جب بھی رشتہ داروں سے سامنا ہوتا تو وہ اسکا تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیتے کہ اس میں کیا تبدیلی آئی ہے، جب انہیں اس میں کوئی منفی تبدیلی یابات نظر نہ اتی تو حیران ہوتے، بلکہ فاطمہ پہلے کی نسبت اب اپنے ملنے جلنے والوں سے زیادہ ادب واحترام سے گفتگو کرتی، اسکی ذات میں شرم وحیا سلیقہ کے ساتھ ساتھ اعتماد کی جھلک بھی نمایاں تھی۔
وہ خوش شکل بھی تھی لہٰذا یونیورسٹی میں کچھ لڑکوں نے اس سے دوستی کرنی چاہی لیکن وہ اپنے کام سے کام رکھتی بلکہ وہ پہلے کی بنسبت زیادہ محتاط ہوگئی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ یہاں صرف تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ائی ہے اس کے کسی بھی غلط قدم اٹھانے سے پوری برادری کی لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے دروازے بند ہوجائیں گے۔
یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہوتے ہی اس کی اپنے والدین کی مرضی سے خالد سے شادی ہوگئی، جو خود بھی اعلی تعلیم یافتہ شخص تھا جس کی اپنی خواہش بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنا تھی۔ جو اسکے گھر اور انے والے بچوں کی صحیح طرح سے تربیت کر سکے۔
وہ لوگ جو منتظر تھے کہ فاطمہ اپنے خاندان کی رسوائی کا باعث بنے گی اب اس کے کردار و شرم وحیا کی مثالیں اپنی بچیوں کو دینے لگے صرف یہی نہیں بلکہ اپنی بیٹیوں کو شوق سے اعلی تعلیم دلوانے لگے _اس طرح فاطمہ نے جو تعلیم کا دیا روشن کیا تھا وہ اگلی نسلوں کے لئے بھی روشن رہا۔
بیشک ایک تعلیم و تربیت سے آراستہ ماں اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارتی ہے۔