میری ماں میرا سائباں

رات اڑھائی بجے کا وقت تھا۔ دسمبر کی یخ بستہ رات میں بھی میرا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔

یہ سب کیا تھا؟

مسزجبران اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے سوچ رہی تھیں۔

خواب کا پورا منظر ان کی آنکھوں کہ سامنے آگیا تھا،

دوپہر کا کھانا بناتے ہوئے میرا غصہ عروج پر تھا۔ ایمن نے جیسے ہی کچن میں قدم رکھا، میں نے اس پر چیخنا شروع کردیا” دفع ہو جاؤ یہاں سے پھوہڑ کہیں کی، کسی کام کی نہیں ہو تم-

زندہ لاش کی طرح ہر وقت بستر پہ پڑی رہتی ہو”-

جوان اولاد کے ہوتے بھی ساری ذمہ داریاں اب تک مجھ پر ہیں۔

“دفع ہو جاؤ کم عقل کہیں کی” –

میں غصے کی حالت میں ایمن کو کچن سے باہر نکال رہی تھی کہ جواباً اس نے مجھے ہی دھکا دے دیا۔

عین اسی وقت پڑوسن گھر داخل ہوئی۔ اس نے سارا منظر دیکھ لیا۔

” ایمن یہ کیا کر رہی ہو ماں ہے تمہاری” –

ایمن کا قہقہہ بلند ہوا

اور وہ طنز کرتے ہوئے بولی

” مااااں؟؟

کیا ایسی ہوتی ہے ماں؟

مائیں تو اپنی اولاد کے لیے سائے کی مانند ہوتی ہیں۔ لیکن یہ تو خود میرے لیے تپتی دھوپ بن گئی ہیں- جس کی تپش نے مجھے جلا کر رکھ دیا” –

اب کی بار ایمن رو دی تھی۔

” آپ کو یہ دھکا تو نظر آگیا آنٹی

لیکن میرے اندر کے زخم کون دیکھے گا جن سے میری روح چھلنی ہوچکی ہے-

انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سارا زہر میرے اندر اتار دیا۔

کیوں؟

آخر کیا قصور تھا میرا؟

چھوٹے بھائی کی پیدائش کے بعد میں اگنور ہوتی چلی گئی۔ لیکن کسی کو احساس تک نہ ہوا،

میری یہ سوچیں مجھ پر حاوی ہونے لگیں جس سے میری کیفیت بالکل بدل گئی، میں سب سے بد دل ہوگئی تھی، مجھے لگا میری ماں مجھے سمیٹ لے گی، لیکن وہی میری دشمن بنتی چلی گئی،

میرے باپ کے کیے گئے ظلموں کا بدلہ اس نے مجھ سے لیا ہے،

مجھ سے!

یہ میری خوشیوں کی قاتل ہے”۔یہ کہتے کہتے ایمن کو یک دم جھٹکا سا لگا اور وہ بے ہوش ہوگئی- ایمن ! ! ایمن ! !

خواب کے متعلق سوچتے ہوئے مسز جبران کا پورا وجود کپکپا رہا تھا ۔

” شکر ہے یہ خواب تھا”

مسز جبران نے فوراً اٹھ کر وضو کیا اور نوافل ادا کیے شکرانے کے بھی اور توبہ کے بھی ۔

” یااللہ میں تیری گناہ گار بندی مجھے معاف کردے” –

“میں اپنی گود کو اپنی بچی کے لیے ایک خوبصورت پناہ گاہ بنا سکتی تھی” –

مسز جبران سجدے میں دعا کرتے ہوئے سسک رہی تھیں ۔

“یا اللہ مجھے معاف فرما اور وہ طاقت دے کہ میں اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرسکوں اورانہیں وہ محبت دے سکوں جس کی انہیں ضرورت ہے”-

صبح کا سورج طلوع ہوچکا تھا

مسز جبران کچن میں چائے بنانے گئیں اور ایمن کو بیداری کے لیے بہت پیارسے آواز دینے لگیں ۔

” ایمن اٹھ جاؤ بیٹا صبح ہوگئی ہے۔ چلو آج دونوں مل کر چائے پیتے ہیں اور ڈھیروں باتیں کرتے ہیں”-

(انہوں نے یہ الفاظ خود میں بے حد حوصلہ سمیٹتے ہوئے کہے تھے۔ ورنہ ایمن کو دیکھتے ہی روز موڈ خراب ہو جاتا تھا۔)

بستر سے اٹھتے ہوئے ایمن نے حیرت سے دیکھا ۔

“میں ایمن ہی ہوں مما”۔

” ہاں تو مجھے پتا ہے۔ کیوں میں اپنی بیٹی کے لیے چائے نہیں بنا سکتی”

چائے کے بعد انہوں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا ۔

“خوش خوش رہا کرو ایمن”

آج ایمن کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ وہ بات بات پر مسکرا رہی تھی۔

رفتہ رفتہ اس میں بدلاؤ نظر آنے لگا-

مسز جبران نے اپنے مزاج میں بے حد نرمی پیدا کرلی تھی۔ اور ایمن کو بات بات پر ٹوکنا، ڈانٹنا سب چھوڑ دیا تھا۔

اب ایمن خود بخود ہی کام میں ماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔ جب ماں کے چہرے پر تھکاوٹ دیکھتی تو خود کہہ دیتی چھوڑ دیں مما باقی میں دیکھ لیتی ہوں۔

آہستہ آہستہ ایمن گھر کی زمہ داریاں سنبھالنے لگی تھی-

سب کچھ بدلنے لگا ہے- “الحمدللہ” “میں، میرا مزاج ،ایمن کا رویہ سب ٹھیک ہورہا ہے-

اور شاید یہ سب میرے لہجے کی تبدیلی سے ہی ممکن ہوا” ۔

مسزجبران ہاتھوں میں چائے کا کپ تھامے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے سوچ رہی تھیں-

آج وہ ایمن کو بیاہ کر پر سکون ہو چکی تھیں ۔شاید یہ سکون نرم مزاجی اپنانے اور ایمن کو محبت دینے سے ہی ملا تھا۔

کبھی کبھی خود کو پر سکون رکھنے کے لیے دوسروں کو سکون دینا پڑتا ہے۔