آج کی ایک خبر کہ ایک عورت پر ظلم ڈھایا گیا اسکی عزت کو پامال کر کے اسے زمین دوز کردیا گیا، کچھ اور درد ناک خبریں بھی سامنے آتی گئیں۔ وڈیروں کی حویلیوں میں جسمانی تشدد کے بعد معصوم بچیوں کو یوں غائب کردیا جاتاکہ ان کی باقیات بھی نہ ملتیں،
نہ جانے کتنی معصوم بچیوں کو مالکان تشدد کا نشانہ بنا کر ہسپتالوں کی چوکھٹ پربے یارو مددگار چھوڑ آتے۔خواتیں اور ان نوجوان بچیوں کے ساتھ آئے دن پیش آنے والے یہ نازیبا واقعات کا پڑھ کر اور سن کر مجھے تو ساڑھے چودہ سو سال پیچھے عرب کے زمانہ جاہلیت کے واقعات یاد آ گئے، زمانہ جاہلیت میں عورت کو اسی نوعیت کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن یہ واقعات طلوع اسلام سے پہلے پیش آتے تھے”
یہ2010 کی بات ہے جب ہمیں حج کی سعادت نصیب ہوئی، جب مکہ مکرمہ میں ہمیں مقام شبیکہ کی زیارت کروائی گئی تو ہمارے گروپ کی رہنمائی کرنے والے مولانا صاحب نے بتایا کہ یہ وہ قبرستان ہے جہاں زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا؛ پھر انہوں نے زمانہ جاہلیت میں خواتین کے ساتھ ناروا برتاؤ کے کچھ واقعات سنائے، جنہیں سن کر دل دکھی ہوا مگر ہماری آنکھوں سے شکرانے کے آنسو ٹپک پڑے کہ شکر الحمد لله کہ آج دین اسلام میں عورت محفوظ ہے۔
خیر جس نوعیت کے واقعات انہوں نے گوش گزار کیے وہ تو موجودہ دور میں بھی خواتین کے ساتھ رواں ہیں کہیں عورتوں کو جائیداد کی وجہ سے قرآن سے بیاہنے کی جاہلانہ رسم( ستی)؛ کے حوالے کیا جاتا ہے تو کہیں اس کی جائیداد کی وجہ سے نابالغ کے ساتھ یا بوڑھے ضعیف رشتے دار کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ زمانہ جاہلیت کی طرح عورت کو باندی بنا کر اسے ہوس کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے قانون اور پولیس تک ان ظالموں کی اتنی رسائی ہے کہ ان مظلوم خواتین کی لاشوں کے ساتھ ساتھ تمام ثبوت بھی دفنا دئیے جاتے ہیں۔
کاش پاکستان میں ایسا اسلامی قانون اور شریعت نافذ ہوجائے جس سے عورت ذات کو ان تمام حقوق سے نوازا جائے جو دین اسلام نے اسے حقیقی معنوں میں نوازے ہیں جسکی بدولت ہر مکتب فکر اورطبقے کی عورت کو مکمل تحفظ اور تکریم حاصل ہوسکتی ہے۔
اسلام نے تو غیر مسلم عورت کی عزت اور احترام کے ساتھ ساتھ اسے تحفظ دینے کی بھی تعلیم دی گئی ہے؛ پھر ہمارے اس اسلامی ریاست میں یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے اس میں قصور کس کا ہے؟۔