ویلنٹائن ڈے 

محبت ایک فطری جذبہ ہے جو کہ صرف انسانو ں میں ہی نہیں بلکہ ہر جاندار میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لیے وہ اس محبت کے اظہار کا سلیقہ رکھتا ہے۔ محبت ایک لافانی جذبہ ہے کیوں کہ انسان تو اپنی زندگی گزار کر فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے لیکن اگر اس نے کسی سے محبت کی ہوگی تو اس کے مرنے کے بعد بھی وہ محبت اس کے محبوب کے دل میں زندہ رہتی ہے۔
انسان اپنے دین سے محبت کرتا ہے، محبت انسان اپنے ماں باپ سے بھی کرتا ہے، اپنے دوستوں سے بھی کرتا ہے، اپنے بزرگوں سے بھی کرتا ہے۔اپنی اولاد سے بھی کرتا ہے۔ اسی طرح نوجوانی میں جب انسان کے جسم میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں تو فطری طور پر وہ صنفِ مخالف میں ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ دراصل یہی وقت انسان کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور یہی انسان کے بہکنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ، اسی موقع کو شیطان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ہر سال 14 فروری کو محبت کا دن منایا جاتا ہے، جو کہ ویلنٹائن ڈے کہلاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ محبت تو انسان اپنے والدین، بہن بھائی، بزرگوں،اپنے دین ، اپنے وطن ، مناظر فطرت سے بھی کرتا ہے لیکن اہل مغرب نے اس کو صرف اور صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے وقف کردیا ہے اور ویلنٹائن ڈے کا مطلب کسی نوجوان لڑکے اور لڑکی کا آپس میں تعلقات کو محبت کہہ کر یہ دن منایا جاتا ہے۔ مغرب میں ایک عرصے سے یہ تہوار منایا جارہا ہے، مگر گزشتہ ایک دہائی سے ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ خرافات ہمارے معاشرے میں بھی پھیلائی جارہی ہے۔ پہلے ہم اس دن کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں گے اور پھر اس کے160 نقصانات پر بات کریں گے۔
ویلنٹائن ڈے 14 فروری وہ دن ہے کہ جس دن سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اس کے نام سے موسوم کردیا تھا۔رومن روایات کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز رومن تہذیب کے عروج کے دور سے ہوا۔ وہاں یہ دن رومن دیوی دیوتاؤں کی ملکہ ’’جونو‘‘ کے اعزاز میں یوم تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا۔اس موقع پر پورے روم میں رنگا رنگ میلوں کا اہتمام کرتے، جشن کی سب سے اہم چیز نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی۔ اس رسم میں لڑکیوں کا نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیا جاتا تھا اور وہاں موجود نوجوان باری باری پرچی نکالتے اور جس نام کی پرچی نکلتی ، وہ جشن اختتام تک اس نوجوان کی ساتھی بن جاتی جو آخر کار شادی کے بندھن پرختم ہوتا۔ یہ ایک روایت تھی۔
ایک اور روایت کے مطابق شہنشاہ کلاڈیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے کشت وخون اور جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ وقت آگیا کہ نوجوانوں نے فوج میں جانا چھوڑ دیا کیوں کہ وہ اپنا گھر بار اور بیویی بچوں کو چھوڑ کر محاذ جنگ پر جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ شہنشاہ کلاڈیس نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک خاص عرصے تک شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی پر آمادہ کیا جائے۔ اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ ماریس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کا اہتمام کیا ، لیکن ان کا یہ اقدام شہنشاہ سے چھپ نہ سکااور اس کے حکم سے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرلیا گیا اور اذیتیں دے کر 14 فروری 270 عیسوی کو قتل کردیا گیا۔ اس طرح یہ دن سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے مقدس قرار دے کر منایا جانے لگا۔
ایک اور روایت کے مطابق تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے تین سینٹ گزرے ہیں ، ان تینوں خدا ترسوں میں سے دو کے سر قلم کردیے گئے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کا تعلق ایسی کسی تقریب سے نہ تھا اور نہ ہی ان میں سے کوئی دنیاوی محبت کے جذبے سے آشنا تھا۔ انگریزی میں ویلنٹائن پر سب سے پہلی نظم چوسر نے 1382عیسوی میں پارلیمنٹ آف فاؤلز کے عنوان سے لکھی تھی۔ علم الانسان کے ماہرین کے مطابق یہ دن سردی کے خاتمے کے پر منایا جاتا تھا اور اس لوگ بکری کی کھال اوڑھ کر ہر اس عورت پر پل پڑتے تھے جو انہیں نظر آتی تھی۔
یہ تمام روایات ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن ان میں سے کسی کا بھی حقیقت سے کوئی160 تعلق نہیں ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے پر اس کے160 نقصانات کیا مرتب ہورہے ہیں؟160 مغربی معاشرے کی ہم بات نہیں کریں گے کیوں کہ وہاں کا خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور معاشرے میں اخلاقی زوال آچکا ہے، جس کے باعث اب انہیں فادرز ڈے، مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے ارتھ ڈے وغیرہ منانے پڑتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کی بات کریں گے۔
اگرچہ پاکستان کے عوام کو اس دن کا علم تھا لیکن بہت ہی محدود پیمانے پر اور صرف اعلیٰ طبقے160 ایلیٹ کلاس نوجوان یہ دن مناتے تھے۔ البتہ نوجوانوں کی اکثریت اس دن کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی، لیکن سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے نام نہاد سوفٹ امیج کو اجاگر کرنے کے لیے بسنت، میراتھن160 ویلنٹائن اور دیگر خرافات کو یہاں پھیلایا گیااور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہماری نوجوان نسل بے راہ روی اور گمراہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھر والوں سے چھپ کر رات گئے تک ایک دوسرے سے محو گفتگو رہتے ہیں بلکہ اب تو جدید موبائل فونز کی بدولت تصاویر کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔رات دیر تک جاگنے کے باعث ان کی صحت اور تعلیم دونوں کا حرج ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب یہ سلسلہ بڑھتا ہے تو پھر ملاقاتون کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ نوجوان گھر والوں سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ محبت بے غرض ہوتی ہے اور ایثار پسندی کا جذبہ پیدا کرتی ہے ، مگر ہمارا یہ کہنا ہے کہ ایسی سفلی محبت جو صرف ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہوتی ہے وہ خود غرض ہوتی ہے کیوں کہ اس کے جال میں پھنس کر نوجوانوں کو اپنے محبت کرنے والے ماں باپ دشمن نظر آتے ہیں۔ ہر خیر خواہ اور ناصح ان کو ظالم سماج دکھائی دیتا ہے اور صرف اپنی ذات کی خاطر یہ لوگ محبت کرنے والے ماں باپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ بہنیں اپنے محبت کرنے والے اور جان چھڑکنے والے بھائیوں کا سر جھکا دیتی ہیں اور دلچسپ باتے یہ کہ اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کی خواہشات پر عمل نہ کرے تو وہی محبت کا دعوے دار اور اس پر جان چھڑکنے والا، آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کرنے والا اپنی سفلی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر اسی لڑکی کو پورے معاشرے میں بدنام کردیتا ہے، اس کو بے وفا، بے مروت اور نہ جانے کیا کیا کہتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ بہت سیجنونی تو اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر اس لڑکی کو قتل کرنے یا اس کے چہرے پر تیزاب تک چھڑکنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ سب ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔اب خود فیصلہ کریں کہ یہ کیسی محبت ہوتی ہے جو صرف اپنی غرض تک محدود ہوتی ہے۔
بعض نام نہاد دانشور اور ادیب اس محبت کو نعوذ باللہ اللہ سے رسائی کا ایک ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک گمراہ کن نظریہ پیش کرتے ہیں کہ عشق حقیقی کے لیے عشق مجازی لازمی ہے اور جب تک عشق مجازی نہیں ہوگا اس وقت تک انسان معرفت کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔ان لوگوں کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ آج تک ہم نے جن انبیا اور اولیا کا ذکر سنا اور پڑھا ہے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی یہ خرافات منسوب نہیں ہیں اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کے ذریعے سے عشق حقیقی کی منزلیں طے کی ہیں بلکہ ان تمام اصحاب نے نفش کشی، دنیا کی لذات سے کشی اور خلق کی خدمت سے اللہ کے مقرب بندوں میں اپنا نام لکھوایا اور ان کے دنیا سے پردہ کرنے برسوں بعد بھی ان کا نام عقیدت و احترام سے لیا جاتا ہے اور رہتی دنیا تک احترام سے لیا جاتا رہے گا۔
160ہمارے ادب میں کچھ عشقیہ داستانوں کو کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے، لگے ہاتھوں ان کی حقیقت بھی کھول دی جائے۔ ہمارے ادب میں سب سے بڑا درجہ لیلیٰ مجنوں کی داستان کا ہے۔ روایت کے مطابق عرب کے قبیلہ بنو عامر کا نوجوان قیس اپنے محلے کی ایک لڑکی لیلیٰ پر فریضتہ ہوگیا اور اس کے عشق میں پاگل ہوگیا تو اس کو مجنون یعنی دیوانہ پاگل کا لقب دیدیا گیا اور مجنوں لیلیٰ کے فراق میں صحراؤں کی خاک چھاننے لگا۔ اس کے بارے میں ہم بتا دیں کہ آج تک یہی واضح نہیں ہوسکا کہ مجنوں کا قصہ ہے کب کا؟؟ زمانہ قبل از اسلام کا کیا بعد از اسلام ؟ جب یہ بات طے ہوجائے تو اس کے بعد ہی اس کی سچائی پر کچھ بات کی جاسکے گی۔
اسی طرح شیریں فرہاد کا قصہ بھی سب کو معلوم ہے۔ فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کھود کر نہر برآمد کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بات لوگ بھول جاتے ہیں کہ شیریں شادی شدہ تھی اور فرہاد صاحب ایک شادی شدہ عورت کی محبت میں مبتلا تھے۔ یہ بات سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی طرح ایک داستان ہیر رانجھا کی بھی ہے۔ اس کے بارے میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر آج ہمارے معاشرے میں کوئی نوکر اپنے محسن ، اپنے مالک کی بیٹی سے عشق لڑائے ، اس کو ورغلائے تو ایسے نوکر کو نمک حرام، حرامخور اور نہ جانے کیا کیا کہا جائے گا ، کوئی بھی فرد اس کے ایسے گھٹیا اقدام کو اچھا نہیں سمجھے گا لیکن رانجھا صاحب کو ان کی اس حرکت پر سراہا جاتا۔ ہیر کا چچا کیدو جس نے اپنی بھتیجی کی عزت و آبرو کی خاطر رانجھا میاں کا راستہ روکنے کی کوشش کی اس کو بھی ولن بنا کر پیش کیا گیا۔ ان تمام داستانوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں160 ہے اور یہ ساری داستانیں محض نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔
بہر حال ہم اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ دراصل یہ مغرب کا سوچا سمجھا ایجنڈا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو راگ رنگ، نفس پرستی اور دنیا کی رنگینی میں گم کردیا جائے تاکہ وہ کبھی بھی مغرب کی نا انصافی اور ظلم کے سامنے ڈٹ نہ جائیں۔ ہماری اپنے پاکستانی نوجوان بھائیوں اور بہنوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ مغرب کا معاشرہ جن چیزوں کی وجہ سے تباہ ہوگیا ہے تو وہ چیزیں ہمارے لیے کس طرح کارآمد ہوسکتی ہیں؟

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

4 تبصرے

  1. سلیم صاحب آپ نے آرٹیکل بہت اچھا لکھا ہے اور بہت درست لکھا کہ مغر بی معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہوچکا ہے ، جس کی وجہ سے فادرز ڈے، مدرز ڈے، ٹیچرز ڈے ارتھ ڈے وغیرہ منائے جاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ان تمام چیزوں کو پھیلانے میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے لیکن شکر ہے کہ اس سال پیمرا کو فوری طور پر ہوش آگیا اور 14 فروری سے قبل ہی تمام چینلز کو اس ایونٹ کو منانے اوراس حوالے سے کوئی بھی پروگرام نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔

  2. بہت شکریہ کلثوم صاحبہ۔آپ جیسی تجربہ کار صحافی کا تبصرہ میرے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔

  3. شکریہ سلیم بلوچ صاحب، آپ تمام لوگوں کے مثبت تبصرے مجھے مزید لکھنے کی ہمت دیتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں