اللہ سبحانہ وتعالی نے انسانیت پر ایک عظیم احسان کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے کلام مجید میں فرمایا: وخلقناکم ازواجا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔
اگر دیکھا جائے تو ازل سے ہی ہر جاندار میں اللہ سبحانہ وتعالی نے مخالف جنس کی رغبت رکھ دی ہے۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے اللہ سبحانہ وتعالی نے اشرف المخلوقات کو جانوروں کی طرح بے لگام نہیں چھوڑا کہ جس وقت یہ طلب محسوس ہو تو جہاں سے بھی پوری ہو اسے پورا کر لیا جائے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ہم پر احسان کیا کہ اس معاملے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔
اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو محسن ِانسانیت ہیں انہوں نے سب سے پہلے مرحلے کے متعلق رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جب بچے دس برس کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر لیے جائیں۔ یعنی جب نفس میں تحریک شروع ہو تو بلوغت کی عمر کے ابتداء میں ہی اسے قابو میں رکھا جائے۔
مزید رہنمائی اس طرح فرمائی کہ نگاہ کی حفاظت کی جائے۔ ہر منظر کو دیکھنا خود پر واجب نہ سمجھ لیا جائے ۔ کیونکہ نگاہ دل کا دروازہ ہے جب نگاہ کسی چیز کو دیکھ لے تو دل اسکی خواہش کرتا ہے پھر انسان اس خواہش کی تکمیل میں حلال و حرام کی تفریق کو بھول بیٹھتا ہے۔
نگاہ کی حفاظت کے ساتھ مرد و عورت کو تنہائی میں ملاقات کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ تو عزیز قارئین ! جہاں شیطان ہو وہاں بھلائی اور خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
رسولِ حیبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری زندگیوں کو پاکیزہ رکھنے کے لیے مزید تاکید فرمائی کہ جو نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ان کو نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب بھی دلائی جس میں سب سے بڑی آسانی یہی کہ مہر آسان رکھا جائے ۔
مگر دورِ حاضر کا حال اس سے برعکس ہے نکاح کو آسان بنانے کے بجائے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ مہر اور جہیز کے تقاضے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ لوگ نکاح کے نام سے بھی گھبراتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہوا کچھ یوں کہ نکاح تو مشکل ترین ہونے کی وجہ سے کہیں بہت پیچھے رہ گیا مگر خواہش نفس تو چونکہ ساتھ ہی تھی اس لیے اس کی تکمیل و تسکین کے لیے نگاہ کی بے راہ روی سے یہ سفر شروع ہوتا ہوا بے حیائی اور فحاشی کی حدوں کو پار کرتا چلا گیا۔ اور اس فحاشی کی تشہیر کے لیے نوجوان نسل خود پر واجب کر بیٹھی جو محبت چھپ چھپا کے کی جاتی ہے ایک دن تو ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں اپنی محبتوں کو علی الاعلان منایا جائے ۔
محبت کرنا یا اظہار کرنا ممنوع نہیں لیکن نکاح کے بغیر کسی نامحرم سے دوستی کا تعلق بنا لینا اور اس میں محبت کا اظہار کرنا اور خیالوں ہی خیالوں میں محبت کی اونچے محلات تعمیر کرنا ممنوع ہے کیونکہ ایسے محلات کی تعمیر تو ممکن نہیں مگر یہ بہت جلد ڈھ جاتے ہیں۔
اور جو نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے حل انہیں بھی بتایا گیا کہ وہ کثرت سے روزے رکھیں۔ روزہ رکھنے سے تقوی حاصل ہوتا ہے اور تقوی کے ذریعہ ایسی تقویت ملتی ہے جس سے انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے اور نگاہ و شرمگاہ کی حفاظت کر سکتا ہے۔
اپنے معاشرے میں امن کے قیام اور نسلوں کی بقا کے لیۓ اس فحاشی کی روک تھام بہت ضروری ہے اور اس کے لیۓ ہمیں نسخہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنانا ہو گا تب ہی ہم اس براٸی سے نکل سکتے ہیں۔
اور حیاء کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا کیونکہ *الحیاء من الایمان* حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ جس بقدر ایمان مضبوط ہو گا اسی قدر حیاء بھی بڑھے گی اور اس گناہ سے بچا جا سکے گا ان شاء اللہ۔
چلو آؤ کہ ہم اک کام کرتے ہیں
فحاشی کو آج سے ہی تمام کرتے ہیں
رسمِ نکاح کو پھر ہم عام کرتے ہیں
درپیش اس میں مشکلوں کو آسان کرتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ہم عام کرتے ہیں
اور یوں فحاشی کو پھر ہم تمام کرتے ہیں۔