ارے میں کہتی ہوں یہ سارا قصور ہی موبائل فون کا ہے۔ پہلے کہاں رواج تھا، کہ کوئی مہمان گھر آیا ہو اور سب اپنے اپنے فونوں میں گھسے ہوں؟ ہمارے وقتوں میں تو مہمان کے آنے پہ ایسی رونق ہوتی تھی، کہ بہن! نہ ہی پوچھو۔ اب میزبان تو میزبان مہمان خود آتے ہی پہلے وائی فائی کا پاسورڈ پوچھتاہے۔ دادی جان آنٹی رخسانہ کے آتے ہی شروع ہوچکی تھیں۔ آنٹی رخسانہ جو کہ امام مسجد کی بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ بچیوں کو تفسیر پڑھاتیں، رمضان میں دورہ قرآن کرواتیں، جس کی وجہ سے پورے محلے میں معزز خاتون کے طور پہ جانی جاتی تھیں۔
اماں جی پریشان نہ ہواکریں، بچے ہیں سمجھ جائیں گے۔ رخسانہ باجی نے نرمی سے سمجھایا۔ اماں جی! میں نایاب کے لیے آئی تھی باجی رخسانہ نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی۔ میرے خیال میں امتحانات تو ہوچکے اس کے تو اب فارغ ہی ہوگی؟
جی بالکل، نایاب کی والدہ رفعت بیگم نے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ دراصل ہم دستک مہم پہ جارہے تو سوچا نایاب کو بھی ساتھ ملا لیں آخر یہی جوان نسل ہمارا سرمایہ ہے۔ ہاں ہاں کیوں نہیں نایاب ضرور وقت پہ پہنچ جائے گی رفعت بیگم نے بیٹھتےہوئے یقین دہانی کروائی۔ باجی رخسانہ بات ختم کرکے چلی گئیں۔ امی میں کہہ رہی ہوں میں نے کہیں نہیں جانا، آپ صاف منع کردیں انہیں۔ نایاب تمیز سے بات کر اس لیے تمھیں پڑھا لکھارہےکہ بڑے چھوٹے سے بات کرنا ہی بھول جاو۔ دادی جان نے گُھورکردیکھا۔ دادی جان آپ کو نہیں پتا کتنی شرم آتی ہے گھرگھر جا کے ووٹ مانگتےہوئے، لوگ باہر سے ہی سلام لے کر رخصت کردیتے ہیں۔ کچھ ایسی ایسی باتیں سناتے ہیں اللہ کی پناہ، پچھلی دفعہ آنٹی رافعہ کہہ رہی تھیں ہم کیوں ووٹ ضائع کریں اپنا جماعت نے کونسا جیتناہے؟ بات تک نہیں سنتاکوئی، بیٹالوگ کہتے رہیں ہمیں تو اپنا فرض پورا کرنا ہے۔ دادی جان نے بات کاٹی۔ تمہیں پتاہے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب طائف تشریف لےگئے تھے۔
طائف مکہ سے کتنی دور ہے بھلا؟ مکہ سے ساٹھ میل کے فاصلے پر دادی نے خود ہی سوال کا جواب دیتے ہوئے تَمْہِید باندھی۔
بیٹا کیا آپ جانتی ہو؟ کس طرح آپﷺ زید بن حارثہ کے ہمراہ پیدل سفر کرکے طائف پہنچے؟ اچھا یہ تو بتاو کہ طائف میں ہمارے نبی کریم ﷺ کا کونسا عزیز تھا؟ جو راہ دیکھ رہا ہو، کہ میرے آقا آئیں میں استقبال کروں، کوئی نہیں ” نہ کوئی دوست تھا نہ عزیز”ناسمجھ، جاہل، مشرک لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے چل دیے، کہ شاید کوئی میری بات سمجھ لے۔
لیکن پتا ہے جب انہوں طائف کے سب سے بڑے سردار کو دعوت دی تو کیا جواب ملا؟ دادی جان کی آنکھیں اشکبار تھیں، ان کے سردار نے کہا،
اگر اللہ تجھے رسول بناتا تو تو یوں پیدل جوتیاں چٹخاتا پھیرتا، دوسرے نے کہا اللہ کو کوئی اور نہ ملا جو تجھ کو رسول بنایا؟ صرف اتنا ہی نہیں کیا بدبختوں نے اوباش غنڈے بھی پیچھے لگادیے جنہوں نےاتنے پتھر مار ے کہ آپ لہولہان ہوگئے۔ اس قدر خون بہا کہ جوتیاں خون سے بھر گئیں۔ کبھی اس سفر کو تصور کرو اور سوچو دادی کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو جاری تھے، آج ہم مسلمان ہمارا معاشرہ مسلم، ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی باتوں کو دل پہ لیےبیٹھے ہیں۔ دادی جان نایاب کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے گویا ہوئیں، بیٹا۔۔۔ ! اگر سیدھے ہاتھ سے کھانا سنت ہے، بیٹھ کر پانی پینا سنت رسولﷺ ہے۔ تو لوگوں کی باتیں سن کر خاموش رہنا، بھلی بات کہنا، برائی کی جگہ اچھائی کرنا، گالیاں سن کر دعا دینا بھی سنت ہے۔ یہ سنتیں اپنے بچوں کو سکھانا شاید ہم بھولتے جارہے ہیں۔ نایاب شرمندگی سے گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ بیٹا آج اللہ کے دین کو نافذ کرنے، اس ملک میں سود ختم کرکے قرآن کا نظام قائم کرنے، معاشرے سے فحاشی ختم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟حکومت کی دادی جان نایاب نے نم آنکھوں سے جواب دیا۔
شاباش میری بچی تو اسلامی حکومت تب ہی آئے گی جب ہم اچھے دیانتدار لوگوں کا انتخاب کریں گے، اور لوگوں کو سمجھائیں گےکہ یہ ملک اسلام کے نام پہ لیا ہے، اس میں نظام بھی قرآن کا ہی چلناچا ہیے۔ ان شاءاللہ دادی جان ہم ہر گھر تک پہنچیں گے، نایاب نے جذبات سے پر لہجے میں کہا۔ دادی جان مسکرائیں کیوں نہیں میری بیٹی لیکن وعدہ کرو آئندہ کبھی کسی دین کی بات سے انکار نہیں کرو گی، یہ جہاد ہے میری بچی، اللہ کے دین کو نافذ کرنے کی جدوجہد، اس سے جی کبھی نہ چرانا۔ جی ان شاءاللہ دادی جان ” نایاب نے دادی جان کے گلے میں بازو حمائل کرکے وعدہ کیا”۔
اے قوم تو دے مل کے اگر ساتھ ہمارا
ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا