ماما ! غزہ کیاہے؟ اسرائیل کیوں ان لوگوں پر بم گراتا ہے؟ دسویں کلاس کی طالبہ اقصیٰ نے اپنی ماں سے پوچھا تو نبیلہ ایک دم چونک اٹھی، اس کوایک پوسٹ یاد آئی کہ تمہارے بچے چاہیں یا نہ چاہیں انہیں فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں ضرور بتاؤ ! لیکن نبیلہ کچھ نہ بتاسکی اپنے بچوں کو۔ اب اقصیٰ نے پوچھا تونبیلہ کو یادآیا کہ جب وہ مڈل اسٹینڈرڈ میں تھی تو اس کی ایک ٹیچر نے انہیں بتایا تھا کہ دنیا میں فلسطین ایک ایسا ملک ہے جو پچاس سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ جنگ کے دوران ہی انکی شادیاں ہو جاتی ہیں جنگ میں ہی بچے پیداہوکر جوان ہو جاتے ہیں۔ کچھ اس وقت کی تنظیمَ آزادی میں شامل ہو کر جام شہادت نوش کرتے ہیں کچھ دوسرے شعبوں میں چلے جاتے ہیں، وہ ڈاکٹر بنیں یا تاجر، استاد یا کسان ہر شعبے میں موجود ان کا ایک ایک فرد مجاہد ہے۔ انکی مائیں بھی اس وقت دنیا کی بہترین مائیں ہیں جو اپنے جگر گوشوں کو اللہ کی راہ میں لڑنے کے لئے تیار کرتی ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لئے جان تک وارنے کی تعلیم دیتی ہیں اور اس مقصد کےلئے اپنے بچوں کو اقصیٰ کی کہانیاں سناتی ہیں انہیں تابوت سکینہ کا بتاتی ہیں جس کےمتعلق یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ یہ تابوت مسجد اقصیٰ کی بنیادوں میں چھپایا گیا ہے اس لئیے وہ مسجدِ اقصیٰ کو گرا کر وہ تابوت حاصل کر کے اس جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہیکل سلیمانی کو گرا کر اس کی جگہ مسجد بنائی ہے۔
بیت المقدس مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں کے لئے ہی بہت اہم ہے۔ بیت المقدس کی تعمیر حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی تھی بعد میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تعمیرِ نو کی اس لئے یہودی اس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ بیت المقدس کی ایک دیوار کو یہودی “دیوار گریہ ” کہتے ہیں جس کے پاس آکروہ روتے ہیں۔حضرت مریم علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی بیت المقدس میں ہوئی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہیں ساری زندگی تبلیغ کی اس لئے عیسائیوں کے نزدیک بھی یہ جگہ بہت مقدس ہے، مسلمانوں کے لئے تو یہ بہت ہی متبرک ومقدس ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نےامام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو رات کے ایک پہر میں مکہ سے مسجدِاقصیٰ پہنچایا۔ جومکہ سے 1300کلومیٹر دورہےجہاں پہنچنے میں اس زمانے میں ایک مہینہ لگتا تھا۔ وہاں آپﷺنے ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء علیہم السلام کو نمازپڑھائی۔ سب انبیاء کرام نے آپ ﷺکی اتباع کی۔اسی لئے آپ ﷺکالقب امام الانبیاء ہے۔
اس کے بعد یہیں سے حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺکوآسمانوں پر لے گئے اور اللہ تعالی نے آپ ﷺکومعراج بخشی بیت المقدس نبیوں کی سرزمین ہے اس کی حفاظت اور سلامتی اب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں رہنے والے اہلِ قدس کے ذمے ہے جو بحسن خوبی اس ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں۔ خوشی خوشی اپنی جانیں قربان کرکے، زخم کھا کر، اپنے پیاروں کو ذبح کروا کر ادا کررہے ہیں۔ یہودیوں کو مات دے رہے ہیں اوران شاءاللہ ! اہلِ قدس ہی اسرائیل کونیست ونابود کریں گے۔نبیلہ کو بھی اس کنعانی بستی کےبارے میں بہت زیادہ نہیں پتہ تھا مگر فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں جو کچھ اسے پتہ تھا اس نے اقصیٰ کو بتادیاآج یہ سب بتاتے ہوئے وہ کچھ مسحور سی تھی اسے لگ رہا تھا کہ غزہ کی زمین اور فضاؤں کےذکر میں کوئی ملکوتی سحر ہے جو اسے متاثر کررہا ہے،جو اکثر اسے محسوس ہوتا تھا تو وہاں رہنے والوں کو کتنا مسحور کرتا ہوگا، نجانے ان کو کیا دکھایا گیا ہےکہ فلسطینیوں نے زندگی کو چھوڑ کر موت سے ہی پیار کرنا شروع کردیا ہے۔