اس کے تیزی سےبرتن دھوتے ہاتھ اچانگ رک گئے۔ یہ گلی میں شور کیسا ہے؟ اس نے فکرمندی سے اپنا ملگجہ دوپٹہ ٹھیک سے سر پہ جمایا ،کہنی سے کچھ اوپر چڑھی آستینیں نیچے کیں۔۔۔ ارے بھئی لڑنے کے لیے نہیں برتن دھونے کے لیے چڑھائی تھیں اور بیرونی دروازے کی طرف لپکی۔۔۔ منا اور چھٹکی باہر کھیل رہے تھے اسے فکر سی ہوئی۔۔۔ گلی گلی میں شور ہے،،،فیقا ملنگی چور ہے۔
کیا دیکھتی ہے بچوں اور من چلے جوانوں کا اک ہجوم ہے اور خوب نعرہ بازی ہورہی ہے۔۔۔ اور اچانک سب آپس میں گتھم گتھا ہو گئے کیونکہ ان میں کچھ مخالف پارٹی کے تھے جنھیں شاید نعروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد پتا چلا کہ یہ نعرے تو ان کے لیڈر کے خلاف ہیں۔۔ بس جی پھر کیا تھا وہ گالم گلوچ اور سب دست وگریباں ہوئے کہ الاماں۔۔۔ ہر کوئی اپنے لیڈر پہ جان لٹانے کو تیار تھا اور وہ ناک پہ انگلی جمائے سب کی حالت زار کا بغور مشاہدہ کر رہی تھی ان میں سے کوئ ایک بھی ایسانہ تھاجس نے پھٹے پرانے کپڑے نہ پہنے ہوں بلکہ اکثر کے تو پاؤں میں جوتے تک نہ تھے۔۔۔پرانی بوسیدہ ٹی شرٹس اور پھٹی بد رنگ پینٹوں والے جوان جن کے پاؤں کی چپل موچی کی بار بار مرمت کرنے کے نیا ہی ڈیزائن اپنا چکی تھیں۔۔۔جن کی آنکھوں میں بھوک اور محرومیاں بس چکی تھیں۔۔۔وہ اس بریانی کی دیگ کے عادی ہو چکے تھے جو ان کا لیڈر جلسے کے نام کا پنڈال سجا کر اپنے ان وعدوں کو سنانے کے بعد کھلاتا تھا جو آج تک ایفا نہ ہو سکے۔۔۔نہ دور بدلا۔۔۔ نہ پرانی شرٹس اور بد رنگ جینز کی پینٹیں اور نہ ہی انہیں پاؤں میں جوتے نصیب ہوئے جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ انتخاب بدلا ہی نہیں وہی پرانے نوسرباز اور نعرے بازی اور محض بریانی کی دیگ۔۔۔ اور غریب عوام جن کا نصیب محض بریانی کی دیگ ہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں۔۔۔
لیکن ٹھہریئے اپنا یہ نصیب بنانے والے بھی تو عوام ہی ہیں جن کی گواہی پلٹ پلٹ کر ان کے حق میں جاتی ہے جو پہلے ہی کرپٹ ہوتے ہیں اگر صالح قیادت کا انتخاب کیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں میں بھوک نہیں بلکہ مستقبل میں آگے بڑھنے کے خواب جگمگائیں گے اور وہ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہیں گے۔ان شاءاللہ۔۔۔