اففففف نئے سال کی ٹھنڈ تو اس بار میری قلفی جمانے کے لئے کمر کس کے آئی ہے’ جویریہ نے دستانے پہنے ہوئے ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے کہا ! ساتھ ساتھ منہ سے ہاتھوں پر پھونکیں بھی مار رہی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کے وجیہ کی ہنسی نکل گئی کیونکہ ان چاروں سہیلیوں کے گروپ میں واحد جویریہ تھی جو گرمیوں کو شاندار طریقے سے خوش آمدید کہتی اور سردی آتے ہی اس کے نہ ختم ہونے والے اعتراضات شروع ہوجاتے۔
ارے جویریہ تھوڑی ہمت پکڑو اور شرم بھی ‘ منال نے اس کی کمر پہ دھپ جماتے ہوئے کہا! منال کی بات پر جویریہ نے اسے کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی شرم کی کیا بات آ گئی اس میں ؟ اس کے سوال پہ منال نے عبیرہ کو پکڑ کے سامنے کیا اور بولی! یہ دیکھو ہماری گھبرو حسینہ جنوری کی ٹھنڈ میں بھی نارمل کالج یونیفارم میں تشریف لائی ہیں اور تمہارا بس نہیں چل رہا کہ سوئیٹر ‘ کوٹ اور دستانوں کے باوجود بھی جلتے چولہے پہ جا بیٹھو ‘ منال کے ایسا کہنے پہ وہ تینوں ہنسنے لگیں جبکہ جویریہ نے ان تینوں کو گھورا اور منہ پہ ہاتھ پھیر کر کہنے لگی ” گرمی آنے دو بچو پھر دیکھوں گی تمہیں ” اسی نوک جھونک کے دوران وقفہ ختم ہونے کی گھنٹی بجنے لگی اور یہ چاروں اپنے کلاس روم کی طرف دوڑیں۔
عبیرہ ‘ منال ‘ جویریہ اور وجیہ انٹر کے سال دوئم کی طالبات ہونے کے ساتھ بچپن کی سہیلیاں اور پڑوسی بھی تھیں منال اور وجیہ تو آپس میں کزنز بھی تھیں ‘ پڑھائی میں چاروں ایک سے بڑھ ایک اور کردار و عمل میں بھی یکتا ‘ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد نئے سال میں آج ان کی پہلی کلاس تھی’ کچھ خاص پڑھائی تو نہ ہو رہی تھی کسی بھی کلاس میں لیکن یہ ان چاروں کا کلاس ششم سے اصول تھا کہ سال کے پہلے دن اسکول اور پھر اب کالج ضرور آتیں اور پھر اپنے لئے نئے سال کا کوئی ایسا فیصلہ لیتیں کہ جسے سال کے آخری مہینے تک لازمی پورا کرنا ہوتا، جیسے کبھی کوئی ایسا کام سیکھنا جس سے ان کو اور ان کے گھر والوں کو فائدہ ہو اور کبھی عملی زندگی سے متعلق کوئی خاص کورس کرنا اور اسے پریکٹس میں لانا ‘ کبھی گھر کی مرمت کے چھوٹے موٹے کام سیکھنا ‘ گزرے سال ان کا عہد تھا کہ ششماہی امتحانات میں ایسی محنت کرنی ہے جیسے بورڈ کے امتحانات میں رزلٹ چاہئے اور ماشاء اللہ چاروں نے گزرے سال کے آخری ماہ میں ہونے والے اپنے ششماہی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ اچھی یونیورسٹیز میں آرام سے داخلہ مل جائے۔ اب اس سال کے لئے سب ایک دوسرے سے مشورے کی منتظر تھیں اور وہ وقت انہیں کالج کے پہلے ہی دن ہی میسر آسکتا ہے اس لئے چاروں اپنے سر جوڑے بیٹھی تھیں، میں کہتی ہوں اس سال ہم خود سے یہ کمٹمنٹ کریں کہ اپنے ساتھ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے بھی بورڈ امتحانات میں اچھے نمبر لانے کے لئے ان کی مدد کریں گے ‘ سب سے پہلے عبیرہ نے اپنی رائے دی ‘ تینوں نے تعریفی نظروں سے اسے دیکھا اور منال نے کہا ! زبردست مشورہ، وجیہ کہنے لگی میں نے سوچا تھا کہ اس سال سے ہم کم سے کم پیسے خرچ کرنے کی کوشش کریں گے اور جتنی ممکن ہو بچت کریں گے ‘ تینوں نے اس کی پیٹھ تھپتھپا کر اسے سراہا ‘ جویریہ کہنے لگی میں نے سوچا ہے کہ ہم اپنے وہ سارے کام جو اپنی اماوں یا ہیلپر سے کرواتے ہیں انہیں اب ہمیں ذمے لے لینا چاہئیے کم ازکم اس سے ہم کچھ ذمہ دار تو ہو جائیں گے ‘ یہ سن کر منال کہنے لگی کہ اس سال کا ہمارا عہد کوئی بھی ہو لیکن جویریہ کا آئیڈیا آج سے ہی عمل میں لایا جائے گا کیونکہ یہ ٹالا جانے والا آئیڈیا ہر گز نہیں اور ہر لڑکی ‘ لڑکے کو اپنے کاموں کے لئے کسی پہ بوجھ نہیں بننا چاہئیے تو پھر کیا جویریہ کی رائے ہی اس سال کا ہمارا کمٹمنٹ ہے خود سے ؟ وجیہ نے پوچھا! ارے صبر کرو بھئی ابھی میں نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔ منال نے ایک دم جوشیلے انداز میں کہا ! تو پھر کہو نا تمہاری کیا رائے ہے ؟ وجیہ نے پوچھا
پیاری سہیلیو! منال نے تقریری انداز میں بولنا شروع کیا، نیا سال تو اب شروع ہوا ہے لیکن اس کے لئے میں نے نیا عہد گذشتہ سال کے آخری ماہ میں ہی خود سے کر لیا تھا جب ایک نیوز چینل پر خبر سنی کہ میرا شہر دنیا کی آلودہ ترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے ” جس دن سے یہ خبر سنی یقین مانو بہت تکلیف میں ہوں تم سب سے کہا نہیں کیونکہ ہمیں نئے سال میں ہی یہ سب طے کرنا ہوتا ہے اس لئے اتنے دن پریشان تو رہی لیکن ساتھ ساتھ اس پریشانی سے نکلنے اور اپنے شہر سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے مختلف حل بھی سوچتی رہی ‘
اس کی بات کو درست طریقے سے سمجھ کر جویریہ کہنے لگی ! منال تم نے واقعی ایسے مسئلے کی طرف ہمارے دل پھیرے ہیں کہ یہ تکلیف اب مجھے بھی محسوس ہونے لگی کہ جو شہر ” عروس البلاد ” روشنیوں کا شہر ” کہلاتا تھا اب آلودگی میں اول درجے پہ آ گیا اور یہ ہمارے لئے بہت دکھ اور شرمندگی کی بات ہے ‘ لیکن منال ہم اس کام کیسے کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہم چار بارہویں جماعت کی لڑکیاں ہر گز بھی نہیں کر سکتیں جویریہ بہت افسردہ نظر آنے لگی ۔
جویریہ کی بات پر منال جوش سے بولی ! دیکھو مایوس نہ ہو کیونکہ کام مشکل ہے بہت بڑا ہے بہت افرادی قوت چاہئیے اور یہ بھی طے ہے کہ ہم اپنے شہر سے فیکٹریز ‘ انڈسٹریز باہر نہیں لے جا سکتے نہ بند کروا سکتے ‘ لیکن میں نے ہم سب کی لیڈر فاطمہ باجی سے یہ مسئلہ شیئر کیا تھا اور انہوں نے اس کا مکمل حل نہ سہی لیکن کچھ حل تو نکال ہی دیا ہمیشہ کی طرح ‘
فاطمہ باجی منال کی خالہ تھیں اور ہمیشہ سے ان چاروں کی تربیت میں ان کا بڑا عمل دخل رہا تھا اسی لئے یہ لوگ اتنی کم عمری کے باوجود ایک پختہ سوچ رکھتی تھیں۔
اچھا تو پھر جلدی بتاو فاطمہ باجی نے کیا حل نکالا ؟ تینوں نے ایک ساتھ منال سے پوچھا ۔
فاطمہ باجی میری بات سن کر بہت دیر تک سوچ بچار کرتی رہیں پھر کہنے لگیں ” منو میں اس کا حل تمہیں کل دوں گی ان شاء اللہ ‘ اگلے دن میں پھر ان کے سر پہ جا پہنچی وہ مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور کہنے لگیں ” منو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے تمہیں اپنے شہر کے ماحول کے لئے اتنا سنجیدہ دیکھ کر “
پھر بولیں کہ دیکھو میں نے ایک صفحے پر کچھ پوائنٹ لکھے ہیں اگر ہم کچھ لوگ ہی ان کو اپنی زندگی میں شامل کر لیں تو حالات بالکل بہتر نہ سہی کم از کم ہماری گلی کے لئے بہتر ہو ہی جائیں گے اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک پرچہ میری طرف بڑھا دیا ‘ جسے میں نے بے صبری سے کھولا تو اس میں نمبر شمار کر کے کچھ کام لکھے ہوئے تھے
1 سب سے پہلے اپنے گھر کے افراد کو پیٹرول ‘ ڈیزل کے استعمال سے روک کر بائی سائیکل یا پیدل چلنے پہ راضی کرنا انتہائی ضرورت میں بڑی گاڑی استعمال کرنا
2 گھروں کے باہر کھلا کچرا نہ ڈالنا اور پلاسٹک کے تھیلوں ‘ تھیلیوں کا استعمال ترک کرنا ‘ کاغذ کے لفافے استمال کرنا
3 گھروں کے آگے گندہ پانی جمع نہ ہونے دینا ‘ کوڑا کرکٹ کو آگ نہ لگانا نہ لگانے دینا ‘ باقاعدگی سے خاکروب سے صفائی کروانا
4 گھروں میں اور گھروں کے باہر ممکنہ حد تک پودے لگانا یعنی شجر کاری
5 تیز آواز میں ٹی وی ‘ موبائل استعمال نہ کرنا ‘ گاڑیوں میں ہارن کا استعمال انتہائی صورت حال میں کرنا
6 گھر میں جمع ہونے والا پلاسٹک کا ٹوٹا پھوٹا سامان جیسے کھلونے’ پانی کی بوتلیں ‘ باہر سے آنے والے کھانے کے ڈسبوزایبل ڈبے اور ایسا ہی استعمال نہ کئے جانے والا سامان ایک بڑے تھیلے میں جمع کرنا اور پھر کسی کباڑی کو دے دینا کیونکہ پلاسٹک کبھی بھی خود سے ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کی ری سائیکلنگ بھی اچھی نہیں ہوتی
7 ان گنتی کے کچھ کاموں کو اپنانا ‘ کبھی ترک نہ کرنا اور جس حد تک ممکن ہو قریبی لوگوں تک شعور پہنچانا اور پھر اس کے بعد مزید آگے تک پھیلانا ‘ کوئی بات نہ مانے دل آزاری کرے تو مایوس نہ ہونا بلکہ نئے عزم کے ساتھ اپنے عمل میں مزید پختہ ہوجانا ‘
بس میں نے خاموشی سے اسی دن سے پہلے کام پر عمل شروع کر دینا تھا لیکن تم لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے اچھے کام اجتماعیت کے ساتھ کرنے کا تو بس آج کا انتظار کررہی تھی ” اب بتاو تم تینوں کیا کہتی ہو ؟ یہ کہتے ہوئے منال نے اپنا ہاتھ آگے پھیلا دیا اور اس کے ایسا کرتے ہی وجیہ ‘ جویریہ اور عبیرہ نے تیزی سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما کر اس عزم کو پکا کر لیا کہ بہتری کی شروعات سب سے پہلے اپنی ذات ‘ اپنے گھر اور اپنی گلی سے ‘۔