سال کا آخری دن بھی عجیب ہے، سورج تو اسی طرح غروب ہوتا ہے، جسےصدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
لیکن اس دن سورج غروب ہونے کے مناظر ساری دنیا میں فلمائے جاتے ہیں۔ اور پھر میڈیا پر اس کی تصویر دکھائی جاتی ہے۔ ایک سال اپنے دامن میں کتنے قصے کہانیاں واقعات، حادثات، لے کر رخصت ہوگیا، نیا سال الیکشن کی نوید لے کر آیا ہے، لیکن الیکشن کی کوئی رمق نظر نہیں آرہی ہے، نہ کوئی جوش وخروش ہے نہ ہی کوئی تبدیلی کی امید ہر شخص یہ سمجھ رہا ہے کہ فیصلہ ایمپائر کے ہاتھ میں ہے، اور ایمپائر پہلے ہی اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے، نا امیدی کا یہ عالم ہے کہ جو ریس جیتنے والے گھوڑے ہیں، وہ بھی یہ اعتماد نہیں رکھتے کہ وہ واقعی میدان مار لیں گے، سیاسی جماعتیں انتخابی مہم سے خوفزدہ ہیں، ان کا یہی مطالبہ ہے کہ ان کو سازگار ماحول، ایسے مواقع دیئے جائیں۔ جس سے وہ گھر بیٹھے اور بغیر ہاتھ ہلائے الیکشن جیت جائیں۔
یہ الیکشن ماضی کے الیکشن سے بدترین الیکشن ہوگا، جس میں ایک فریق کو ہاتھ پیر باندھ کر میدان میں کہا جارہا ہے کہ مقابلہ کرو۔ پاکستان میں نادیدہ ہاتھ قیام پاکستان کے فورا بعد سیاست اور سیاست دانوں پر حاوی ہوگئے تھے۔ اس کا آغازقیام پاکستان کے بعد ہوا، وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا سلسلہ 16 اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوا۔ اس کے بعد سہروردی کے علاوہ خواجہ ناظم الدین محمد علی بوگرا، چوہری محمد علی، آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون کو تھوڑی تھوڑی مدت کے لیے وزیراعظم بنا کر فارغ کر دیا گیا۔ آئی آئی چندریگر صرف ایک ماہ اور 29 دن کے لیے وزیراعظم رہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے کچھ دن قبل جس وزیراعظم کو رخصت کیا گیا۔ وہ فیروز خان نون تھے جنہیں نو مہینے 21 دن اقتدار میں رہنے کی مہلت دی گئی۔ ان تمام کاروائیوں سے یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا اس تاثر اور منفی پروپیگنڈے کے بعد بالاخر جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء کے نفاد کا اعلان کیا۔
ایوب خان کے مارشل کے بعد 1971 میں انتخابات میں بھی اکثریت کو اقتدار میں شریک نہ کرنے کا نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر بھٹو کچھ عرصے اقتدار میں رہے، لیکن پھر انہیں بھی تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اور پھر ایک طویل عرصہ جمہوریت قید و بند میں رہی۔ ضیا الحق کے طویل مارشل لاء دور میں بھی نت نئے تجربات ہوئے۔ کبھی مجلس شوری، کبھی ریفرینڈم، کبھی غیر جماعتی انتخابات، کبھی لسانی جماعتوں کو بڑھاوا دیا جاتا رہا، اور نتیجہ میں افواج پاکستان کے بڑے بڑے جرنیل اور ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوئے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی چیئر ریس بھی چلتی رہی کہ پھر ایک اور مارشل لاء نے جمہوریت کی ریل کو پٹڑی سے اتار دیا۔ نواز شریف اور زرداری کی باریاں بھی چلتی رہی اور میاں نواز شریف یہ کہتے کہتے رخصت ہوئے کہ مجھے کیوں نکالا۔ عمران خان آئے بھی اور گئے بھی۔ اب نواز شریف اس طرح آئے ہیں کہ ان کے سارے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، بلکہ ان کے ساتھیوں کو بھی تمام مقدمات سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال لیا گیا ہے، اس ماحول میں دوسری سیاسی جماعتیں ایک طرف تو لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور دوسری جانب پولیٹیکل انجینیئرنگ پر ان کے خدشات ہیں۔
پیپلز پارٹی بھی بالکل کھل کے یہ کہہ چکی ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں، پیپلز پارٹی، مولانا فضل الرحمن کی پارٹی اور جماعت اسلامی اس وقت اپنے تحفظات ضرور ظاہر کر رہی ہیں لیکن وہ الیکشن کے اس موقع کو گوانا بھی نہیں چاہتیں وہ سمجھتی ہیں کہ اگر ان تحفظات کو زیادہ بڑھا کے بیان کیا گیا تو اس کے نتیجے میں انتخابات طویل عرصے کے لیے التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں بھی سیٹیوں کی بندر بانٹ کا فارمولہ طے پارہا ہے، مسلم لیگ نون ایک بار پھر کراچی میں سرگرم ہورہی ہے، اور اس کے لیے وہ پھر اپنے پرانے اتحادی ایم کیو ایم کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ شہباز شریف کراچی میں اپنی سیٹ کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور متحدہ سے ان کی بات چیت جاری ہے کہ ان کے مقابلے پر مصطفےٰ کمال اپنے کاغذات واپس لے لیں۔ ابھی بات چیت کے دو تین سیشن مزید ہونے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی قومی اور صوبائی الیکشن میں اپنی ٹیم اتاری ہے، لیکن جماعت کی قیادت بھی اس مخمصہ کا شکار ہے کہ مقتدر قوتیں، جماعت کو کس قدر پاؤں پھیلانے کی اجازت دیں گے، جماعت اسلامی کو اس بات کا تجربہ بلدیاتی انتخابات میں ہوچکا کہ جیت کو کس طرح ہار میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کی صف اول کی قیادت کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھ کر کیا ملک میں ہونے والے انتخابات پر عوام کا اعتماد ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر سوچنا چاہیئے، اگر ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سب نے تسلیم نہ کیئے تو ملک میں ایک انارکی پھیل جائے گی۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور اعلی عدالتوں کا امتحان ہے کہ وہ اپنی ساگھ اور وقار اور غیر جانبداری کیسے برقرار رکھتی ہیں، اگر وہ اس امتحان میں پورے اترے تو ملک کی آئندہ تاریخ میں انہیں اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے گا، ورنہ برے کارناموں کی سیاہی سے تو بہت سے ابواب سیاہ ہیں۔