مکلف

کاشان وِلا سوگ کی چادر اوڑے غم کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا یہ بے زبان در و دیوار ماتم کناں تھے ان کا خالق ان سے جدا ہو گیا تھا۔

کاشان صاحب کی اہلیہ ایک سال پہلے فوت ہو گئی تھی کاشان صاحب کے دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے ۔

تجہیز و تدفین کے مراحل طے ہونے کے بعد طعام کی وہی صورتحال کے قورمے میں میں شوربہ کر دیا بریانی میں بوٹی نہیں اور کاشان صاحب کی غمزدہ بیٹیاں ان آوازوں کو بھی سن رہی تھیں اور خاطر تواضح بھی کر رہی تھیں۔ متعلقین کے جانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں افسردہ، رنجیدہ سے چلے گئے۔

چند دنوں بعد بہنیں اپنے بھائیوں کے براجمان تو شعیب (چھوٹے بھائی )نے کہا “گھر کو فروخت کر دینا چاہیے وراثت کو تقسیم کر دینا چاہیے “،بڑے بھائی معصب کا خیال تھا یہ تو رہائشی مکان ہے اس میں کہاں وراثت بہنیں سسرال چلی گئیں صاحب ثروت ہیں انہیں ضرورت ہی نہیں،” اس گھر کی دو منزل ہیں ایک میرے لیے دوسری اپ کے لیے کافی ہے۔

شعیب نے کہا “نہیں بھائی وراثت اللہ کے قانون کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے ” گھر فروخت ہوا اور ان تمام وارثین کو ان کا شرعی حق مل گیا۔

شعیب بھائی اس محلے میں بہت عرصے سے رہ رہے تھے سب سے درینہ تعلقات تھے وہ محلے میں گاہے بگاہے اتے رہتے سب ان سے محبت سے پیش اتے تھے انہیں بہت پذیرائی ملتی تھی عزت و احترام و اکرام سے ان کا استقبال کیا جاتا تھا ۔شعیب بھائی اور مصعب بھائی نے کرائے پر مکان لے لیے تھے حصہ کی رقم میں مکان انا مشکل تھا۔

شعیب بھائی کے نئے محلے والے بھی اپ کے اخلاق کی وجہ سے بہت جلد دوست بن گئے تھے اور اپنے رجان اور پسند کے مطابق اپنی سیاسی پارٹیوں کی دعوت دیتے تھے کہ ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں لیکن شعیب بھائی ایک نظریہ رکھتے تھے اپنے نظریے پر استقامت سے قائم تھے اور نرم خوئی سے دوسروں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

کسی کا نکاسی آب کا مسئلہ ہے تو وہ شعیب بھائی کے پاس ا رہا ہے، کسی کا گیس کا مسئلہ ہے تو وہ ان کے پاس ا رہا ہے ,کسی کی خواہش ہے کہ پارک تو اچھی حالت میں ہو جائے ،کسی کی خواہش ہے سڑک بن جائے شعیب بھائی کا سب کو ایک ہی جواب تھا” حل صرف جماعت اسلامی”۔

آخر وہ دن آہی گیا جب سب کو اپنی منزل پانے کی امید ہوتی ہے اپنی محنت کا پھل حاصل کرنا ہوتا ہے ۔

شعیب بھائی کے ووٹ کا مقام اچانک تبدیل کر دیا گیا تھا۔ پورے خاندان کا ووٹ پرانے پتہ پر تھا جہاں ان کے والد کا گھر تھا۔ شعیب بھائی بالکل پریشان نہیں ہوئے بلکہ پورے خاندان کے ساتھ علی الصبح پولنگ اسٹیشن پہنچے اور ووٹ ڈالا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ رب نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل بنایا “۔ہم یہیں تک کے مکلف ہیں کہ دیانت دار ایماندار حقدار قیادت کا انتخاب کریں۔