قائداعظم اور مسئلہ فلسطین

اپنے پیارے قائد اور بانی پاکستان کو یاد کرنے اور انہیں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے لیے قلم و قرطاس تھامے بیٹھی ہوں۔ وہ قائداعظم جو بچپن سے میرے پسندیدہ لیڈر، ریفارمر اور محبوب کے روپ میں میرے دل میں بسے ہیں اور جن کے احسانات کی میں بہت قدردان ہوں۔ پاکستان میرا محبوب وطن اور اس کے بانی میری ہر دلعزیز شخصیت۔

اس دوران مجھے غزہ کے بہن بھائیوں اور معصوم بچوں نے غمناک بھی کر رکھا ہے۔ بے رحم صیہونی فوج نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ غزہ لہولہان ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ان کی املاک اور گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ان کے ہسپتال گراۓ جارہے ہیں۔ بے شمارنہتےفلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔ بےشمار شہریوں کو میدان میں پھانسی دی گئی۔ بجلی اور پانی سے محروم رکھا گیا ہے اور خلیج سمیت مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں مجھے قائداعظم محمد علی جناح کے چند فرمودات نظر آۓ۔ دل چاہا آپ تک بھی پہنچاؤں تاکہ اپنے قائد کے سچے جذبات جو فلسطینیوں کے بارے میں تھے۔ آپ بھی ان سے مستفید ہوں۔

تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں جلسے جلوس منعقد کئے۔1918ء سے 1947ء تک مسلم لیگ کونسل کے ہر اجلاس میں فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے قراردادیں منظور کی گئیں۔ 1937ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی تو قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی شدید مخالفت کی اور برطانیہ کو متنبہ کیا کہ عربوں سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی پر شدید ردِعمل ہوگا اور برِصغیر کے مسلمان عربوں کی حمایت میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

1947ء میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈبن گوریان نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائداعظم کے نام بھجوایا جس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا: ” دنیا کا ہر مسلمان مرد وزن یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجاۓ جان دے دے گا۔مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اپنے ہاتھ اٹھالیں اور پھر میں دیکھوں کے یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا۔اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔”

مسئلہ فلسطین کی حمایت بانی پاکستان کے اصولوں کا بنیادی جزو ہے۔ اسرائیل سے تعلقات قائداعظم اور پاکستان کے نظریہ سے انحراف ہے۔ ہم جانتے ہیں فلسطین سے متعلق قائداعظم کا دو ٹوک موقف موجود ہے۔ جس سے اسرائیل کے وجود کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسرائیل کی حمایت میں گزشتہ پانچ دہائیوں سےپاکستان میں کام جاری ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پاکستان بہت ترقی کرے گا۔یہ محض دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

بلاشبہ پاکستان باباۓ قوم کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچانے والے عناصر صیہونی ایجنڈا پر کار فرما ہیں۔ لہذا میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ پاکستان میں فلسطین یا کشمیر کاز کے خلاف بات کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کی جاۓ۔ اسرائیل اور ہندوستان کے حامیوں کو فی الفور گرفتار کیا جاۓ۔

مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے ایک خط میں قائداعظم محمد علی جناح نےاپنے کرب کا اظہار یوں کیا:

“میں فلسطین کے مسئلے کیلئے جیل جانے کے لیےتیار ہوں۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کےلیے بہت عظیم ہے۔ یہ ایشیا کا دروازہ ہے۔”

علامہ اقبال نے سرزمین فلسطین و قبلہ اول سے اپنی روحانی و جذباتی وابستگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

؎ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

 ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا