وہ ضبط کی معراج تھا وہ عزم کی تصویر
آزادیٔ مسلم کے حسین خواب کی تعبیر
ملت کے تنٍ مردہ میں وہ روحٍ رواں تھا
اور دشمنٍ ملت کے لئے شعلہ فشاں تھا
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اعلیٰ انسانی اوصاف کا مجموعہ تھی۔ ان میں ایک نمایاں وصف اُنکا اندازٍ خطابت تھا ۔ ایسا اندازٍ خطابت جو حق و انصاف کے اظہار پر مبنی تھا۔ جس میں ریا کاری اور دوسروں کے جذبات سے کھیلنے کا معمولی شائبہ بھی نہ تھا۔ اپنے مقصد اور موقف تک محدود رہتے ہوئے صاف گوئی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کرنا ہی آپکی کامیابی کی بہت بڑی دلیل تھی ۔ نہ بہت تیز بولتے اور نہ بہت آہستہ ، ایک درمیانہ انداز ہوتا ۔ عموماً آپ کی تقریر ولولہ انگیز ہوتی ۔ ایک ایک لفظ واضح اور بامعنی ، جو آپ کے مؤقف کا مکمل ترجمان ہوا کرتا تھا ۔ آپ کے بیشتر معاصرین نے اندازٍ خطابت کو آپ کی سیاسی کامیابی کا ایک اہم جزو قرار دیا ہے ۔ فکری اعتبار سے آپ کی تقاریر آج بھی پاکستانی عوام کے لئے ایک درس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ معروف ماہرٍ تعلیم دانشور اور مفکر پروفیسر حمید احمد خان نے اپنے ایک مضمون میں قائد اعظم کی صفات کا تذکرہ اس طرح کیا ہے” قائد اعظم کی آنکھوں میں بجلی کی ایک چمک تھی جو ان کی روح کے لاتعداد خزانوں کا پتہ دیتی تھی ۔ آپ کی فراستٍ ایمانی نے مسلمانوں کو احساس دلایا کہ ان کے مصائب کا حل مسلم لیگ کی سیاست میں پوشیدہ ہے۔ لہذا پوری قوم آپ کی قیادت میں مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہوگئی ۔ قائد اعظم کے نزدیک اصل شے بصیرت تھی جو بالغ نظری اور عقل و خرد کے وضع کردہ اصولوں سے پیدا ہوتی ہے ۔ قائد اعظم نے کانگریس ایک رہنما سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ” تمھاری یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بات کی جائے جس سے لوگ خوش ہوں ۔ میرا طریق اس سے مختلف ہے۔ میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ درست اور صحیح کیا ہے پھر میں اپنے فیصلے کے مطابق کام کرتا ہوں۔ “
بانیٔ پاکستان کو مطالعہ کا بڑا شوق تھا خصوصاً اخبارات کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے تھے۔آپ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ تحریکٍ پاکستان کی ایک خاتون رہنما اور قائد اعظم کے ایک رفیق کار کی صاحبزادی بیگم انور حسین ہدایت اللہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ کراچی میں قائد اعظم ان کے گھر مہمان تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ہم کئی لڑکیاں ان کے پاس گئیں اور ان سے گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے مجھ سے پو چھا ” اخبار پڑھتی ہو” ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا ” شروع سے آخر تک ” میں نے کہا “نہیں صرف سرخیاں ” فرمایا “نہیں اس وقت ضرورت ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ میرا یہ مشورہ ہے کہ آپ اخبارات کا جس قدر مطالعہ کر سکتی ہیں کریں – اخبار تو بر مسلمان بچے کو پڑھنا چاہئیے۔ اپنے بچوں کو بھی عادت ڈالو کہ وہ صبح اٹھ کر اخبار پڑھیں تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ہم کہاں کہاں پیچھے رہ گئے ہیں”؟ آپ اخبار نویسوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے مسلمان صحافیوں کو مخاطب کر کے فرمایا ” آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ایثار سے کام لیں ۔ اگر آپ کسی کے ہاتھ بک جائیں گے تو آپ کسی حال میں قوم کی خدمت نہیں کر سکتے ۔ زندہ قوموں کے اخبارات کبھی دولت کی خاطر اپنے اصولوں کا سودا نہیں کرتے”۔
قائد اعظم کو اللہ تعالی نے ایسی صلاحیت عطا کر رکھی تھی کہ وہ اپنے حریفوں کی تمام چالوں کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ ان کو نا کام بھی بنا دیتے تھے۔تدبر ، استقامت اور فیصلہ کرنے کی قوت ان کے اندر قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے حریف اُن پر غالب نہ آسکے۔ یہ بات تحریک پاکستان کے رہنما اور صوبہ سرحد کے بابائے صحافت مرحوم اللہ بخش یوسفی نے اپنے ایک مضمون میں لکھی ہے ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں قائد اعظم کے فہم و فراست کی چند اہم مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریز اور ہندو دونوں بیک وقت قائد اعظم کے حریف تھے اور دونوں کی کوشش تھی کہ مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جائے یہی نہیں بلکہ ایک مرحلہ پر تو کانگریسی رہنما جواہر لال نہرو نے برملا یہ کہہ دیا کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک ہندو اور دوسرے انگریز۔ قائد اعظم نے فوراً جواب دیا کہ یہ غلط ہے۔ ہندوستان میں تین قوتیں ہیں۔ ہندو ، انگریز اور مسلمان۔ قائداعظم ہندو اور انگریز دونوں کی حکمت عملی سے خوب واقف تھے۔ آپ کو ان کی چال سمجھنے میں دقت نہ ہوتی تھی ۔ آپ صبر و استقلال سے کام کرنا جانتے تھے ۔ اپنے عزم و ارادہ پر چٹان کی طرح قائم رہے حتیٰ کہ دونوں حریفوں نے شکست تسلیم کرلی۔ مسلمانوں کی طاقت تسلیم کرلی گئی ۔ برابر کی حیثیت میں گفتگو ہونے لگی اور بالآخر پاکستان کے قیام کا اعلان ہو گیا ۔
قائد اعظم ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے اور قوم کو بھی باوقار دیکھنا چاہتے تھے۔ اُن میں بلا کی خود اعتمادی تھی اور وہ پر پاکستانی کو بھی خود اعتماد دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے ذاتی کردار سے سیاست اور حکومت کو یوں نئے معانی دیئے کہ اُن کے بدترین دشمنوں کو بھی ان کی دیانتداری ، صاف گوئی اور فکری پاکیزگی کا اعتراف کرنا پڑا۔ انھوں نے جھوٹ ، منافقت ، عہد شکنی اور مطلب پرستی کو کبھی نجی اور سیاسی زندگی کے قریب نہ پھٹکنے دیا ۔ وہ پاکستانی قوم میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتے تھے۔ حقیقت پسندی انکے کردار کا خصوصی وصف تھا۔ وہ امن پسند اور انصاف پسند تھے وہ پاکستان کو بھی امن و انصاف کا گہوارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے فرائض محنت ، ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ انجام دئیے ۔ وہ قوم سے بھی یقیناً یہی توقع رکھتے تھے ۔ انھوں نے پوری قوم کو یکجا کرنے کے لئے اتحاد، ایمان اور نظم وضبط کا درس دیا۔ وہ اہلٍ پاکستان کے دلوں میں اخوت محبت اور ایثار کا جذبہ دیکھنا چاہتے تھے ۔
۲۵ دسمبر ہر سال آتا ہے اور ہمیں یاددہانی کرواتا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں ۔ بابائے قوم محمد علی جناح کی طرح اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں ۔ اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے قائد اعظم کی تعلیمات کے مطابق کس حد تک محنت، دیانت اور خلوص و تندہی کے ساتھ ملک و ملت کی ترقی کے لئے کام کیا ؟
تا عمر وہ ہم سب کے لئے راہنما ہے
یہ پاک وطن، پاک زمین اس کی عطا ہے
آؤ کہ محبت کی نئی شمعیں جلائیں
جو عہد وفا اس سے کیا تھا وہ نبھائیں