سوشل میڈیا استعمال نے جہاں دنیا کو گلوبل ولیج بنایا وہیں کئی جگہوں پر سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے کئی زندگیاں نگل لیں اور کہیں لوگوں کے گھر اجاڑ دیے۔ اور جوں جوں دنیا ڈیجیٹل ہوئی ویسے ویسے دنیا کا جینے کا انداز بھی بدل گیا۔ لوگوں میں موبائل فون کا استعمال بڑھ گیا اور لوگ ڈیجیٹل دنیا سے جڑ گئے۔مگر ٹک ٹاک جیسی ایپ کے آنے کے بعد لوگوں ناچ گانے سے شہرت حاصل کرنے لگے اور پیسے کی لالچ میں لوگوں نے ناچ گانے کو زندگی کا شعار بنا لیا ۔ شہرت کی لالچ میں لوگوں نے بے حیائی اور بے ہودگی کی ہر حد پار کر لی ہے ۔
کئی لوگ تو اتنی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں کہ کوئی باشعور انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کچھ لوگ اچھا کونٹیٹ بنا کر معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا رہے ہیں مگر کچھ لوگ تو بالکل جنونی ہیں اور اسی جنون نے ان کی جان بھی لے لی۔ لائیک اور ویوز کے چکر میں عجیب و غریب نمونے سامنے آرہے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ گاؤں دیہات کی لڑکیاں بھی خود کو بے آبرو کرنے لگی ہیں۔
میں نے کئی ٹک ٹاکرز کو دیکھا ہے جو اپنی وڈیوز کے ویو میں ہر حد پار کر جاتے ہیں حتیٰ کہ مرنے کی خبریں تک چلوا دیں۔ کوئی اپنے شوہر کو مار رہی ہیں تو کوئی خود ہی مرنے کا ناٹک کررہی ہیں۔ بعض لڑکیوں نے تو اپنی ہی ویڈیوز اور تصاویر وائرل کروا کے ریٹنگ لینا شروع کردیا۔ ہمدریاں حاصل کیں اور یوں لوگوں کی نظر میں معصوم بننے کا ناٹک کرتی دکھائی دیں۔
یہ لوگ کس قدر اخلاقیات کی حدیں پار کر جاتے ہیں کہ دوسری کی ذاتی زندگی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ عامر لیاقت حسین پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر اور اینکر رہے ان کو نہیں چھوڑا گیا یہاں تک کہ دنیا سے چل بسے۔
قاسم علی شاہ جو سب کو موٹیویٹ کرتے رہے انہیں سوشل میڈیا پر اتنا ٹرول کیا گیا کہ وہ خود ذہنی مریض بن کررہے گئے۔مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی وفات پر ایک عجب طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر کھڑا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے وہ خاصی ذہنی پریشانی کا شکار ہوئے۔
خود نمائی کا جنون نے آج کے انسانوں کو پاگل بنا رکھا ہے اس کے لئےوہ کسی بھی حد تک جانے کے تیار رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نشہ ہے۔جس نے ہمیں ہماری اقدار و روایات سے بھی دور کر دیا ہے۔ ہم اپنے گھر والوں کے پاس موجود ہوتے ہوئے بھی کسی اور ہی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں۔اس لت نے ہر عمر کے انسان کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ ہم صبح سے شام تک لے کر اپنے ہر لمحے کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اور فیشن انڈسٹری نے ریٹنگ کے چکر میں عورت کو ایک پروڈکٹ بنا کر پیش کیا اور فیشن انڈسٹری نے بھی اپنی مصنوعات بیچنے کے عورت کو ہی شوپیس بنا کر استعمال کیا۔ اور یوں شہرت کے جنون نے ہمارے معاشرے کو ذہنی مریض بنانے کے ساتھ ساتھ اخلاق طور پر اپاہج بنا دیا۔ سوشل میڈیا کا استعمال برا نہیں مگر خدارا اپنی آنے والی نسلوں کو سوشل میڈیا کا عادی مت بنائیں اور صحیح اور غلط استعمال کا بھی بتائیں۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ وقت دور نہیں جب ہم انسانوں کو جگہ دنیا میں ہمیں صرف چلتے پھرتے جسم دیکھیں گے۔