کاغذ پر سیدھی لائن کھینچ کر اُس کے دونوں طرف مختلف سمتوں میں الجھاؤ کی طرح راستے بنا دیجیے۔ اب اس لکیر کو غور سے دیکھیں اور یوں سمجھیے کہ یہی وہ سیدھا راستہ ہے جو آپ اور میں ہر رکعت میں اپنے رب العالمین سے مانگتے ہیں اور دونوں طرف کے راستے پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے ہمیں بھول بھلیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس سیدھے سچے راستے پر چلنے کے لیے ہمیں جو صلاحیتیں درکار ہیں اُن کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے ہمیں ان عبادات کو اپنانا ہے۔ جو اسلام کے بنیادی ستون کہلاتی ہیں۔ لیکن یہ ہرگز ! پورا اسلام نہیں ہیں بلکہ ہمارا زیور تلوار اور ڈھال بن کر ہمارے اندر وہ مختلف اوصاف کے ذریعے ہمیں اس راستے پر آنے کے قابل بناتی ہیں جس پر چلنا ہی نا صرف پورا اسلام ہے بلکہ میرے ربّ کو مطلوب بھی ہے۔ قرآن اور نبی کی اتباع و پیروی کے بغیر اس راستے پر ڈٹ جانا ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ واحد راستہ ہے. جس پر چلنے کے لیے ہمیں دو طرفہ جد و جہد کی حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ یعنی ایک طرف تو اپنی ذات سے ابتدا ہوگی اور دوسری طرف اس کی انتہا کے لیے اپنی جان، مال، اولاد، وقت اور تمام صلاحیتیں ہمیں اسی راہ کے لیے لگانی ہوں گی۔
یہ راستہ ہواؤں سے ہوتا ہوا نہیں گزرتا بلکہ ہماری ذات سے شروع ہو کر اسی زمین پر سب کے ساتھ رہتے ہوئے ، ہمارے اخلاقیات، معاملات، معاشرت، معیشت اور سیاست کے درمیان سے گزرتا ہوا اُس جنت کی طرف لے جاتا ہے جس کی وسعت آسمانوں اور زمین سے بھی زیادہ ہے جس کی طرف میرا رب جب دوڑنے کا حکم دیتا ہے تو مومن ایسی تجارت کرتا ہے کہ اپنا نفس جنت کے بدلے اپنے رب کو بیچ دیتا ہے۔ پھراگر درمیان میں سانس کی ڈوری ٹوٹ بھی جائے تو اس منزل کے مسافر ہمیشہ کامیاب ہی ہوں گے۔ یہی وہ راہ ہدیت ہے جو جب انجیل کے ذریعے آئی تو انہیں اسی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور جب نبی پر نازل ہو کر میرے اور آپ کے پاس کو قرآن بن کر آئی تو نبی کو بھی اسی ہدایت کے مطابق کہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی۔ یعنی قرآن ہی کی روشنی کے ذریعے ہم سیدھے راستے پر چلیں گے اور اس روشنی کو اپنے ارد گرد بکھیرتے ہوئے اس نظام کو نافذ کر کے ہم دنیا اور آخرت کا نور سمیٹیں گے۔ اور آج اس نظام کو غالب کرنے کا بہترین ذریعہ الیکشن ہیں۔ جن کے ذریعے ہم اپنا ووٹ امن، ترقی، خوشحالی کے نشان ترازو کےحق میں ڈال کر اپنے اعمال نامے کا پلڑا بھاری کر سکتے ہیں۔
اقامت دین کی سعی و جہد کرنے والے ساتھی یہ سمجھ لیں کہ اس دفعہ کے الیکشن جہاد سے کم نہیں۔ لہذا میدان میں اتریں اور اپنے حصے کے کام میں بسم اللہ کریں۔
لوگوں کے دلوں کے دروازے کھلوانے کے لیے جہاں دستک مہم کے ذریئے رابطہ عوام کیا جا رہا ہے۔ وہاں یکجہتی فلسطین کے عنوان کو بھی انتخابی مہم کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ لوگوں میں اس احساس کو زندہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام طاقت کا اصل محور ہیں۔ فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز خواہ وہ بائیکاٹ کے حوالے سے ہو یا جنگ بندی کے حق میں، بہرحال یہ ثابت کر دیا ہے کہ جائز مطالبات کے لیے عوامی دباو کو گراں قدراہمیت حاصل ہے۔ جب کہ اسی تناظر میں ووٹ (جو کسی بھی ریاست کے حکمران کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا) کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے قدرت نے نہایت ساز گار ماحول مہیا کر دیا ہے۔ آج تبدیلی نظام کی بات رکھنا کوئ مشکل بات نہیں رہی۔دنیا میں 58 اسلامی ممالک میں سے کسی بھی ایک ملک میں اسلامی نظام کی قدر و قیمت الحمد للہ امت مسلمہ پر واضح ہو چکی ہے۔
موجودہ حالات خواہ وہ پاکستانی سیاسی کشمکش ہو یا عام آدمی کے مسائل زندگی و دیگر بنیادی ضروریات سے متعلق ہوں۔ ہمارے لیے اپنی ہر بات رکھنا ،اور اس کو تبدیلی نظام سے جوڑنا نہایت آسان رہے گا۔
آج ہر دوسرے گھر کا مسلہ گیس کی لوڈ شیڈنگ، سلنڈر کا استعمال اور آگ لگنے کے کئی واقعات، پانی بجلی کے بحران سے بڑھ کر مہنگائی اور بے روز گاری ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بھی اوبر اور فوڈ پانڈا جاب کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں لوگوں کو یہ باور کروانا ہے کہ مسائل زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہیں اسلام کی آغوش میں ہی پناہ ملے گی۔
عوامی مسائل ,حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ بگاڑ کی مجموعی صورت کو بدلنے اور اس کی جگہ جماعت اسلامی کے ایجنڈے کو بھرپور طریقے سے پیش کریں۔
جس میں مسائل کا حل بھی پیش جائے۔اور عوام میں نئ امید کی کرن جگانے اور مایوسی کو ختم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی فلاحی ،تعلیمی اور سیاسی کامیابیوں اور سر گرمیوں کی تشہیر کی جائے۔
خواتین اپنا نعرہ” با اختیار عورت، مستحکم معاشرہ،ترقی یافتہ پاکستان” کے تناظر میں منشور برائے خواتین کے ہر نقطے، تعلیم، معاشرت، صحت، تفریح، قانونی حقوق، معاشی حقوق، سیاسی اور فیصلہ سازی کے عمل میں شمولیت کو اپنی ہر کلاس، درس اور عمومی ملاقاتوں میں گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے دلسوزی اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ پیش کریں۔
اور دعوت دیں کہ آئیے اپنے اور اپنی نسل کے روشن مستقبل کے لیے، پاکستان میں امن، ترقی و خوشحالی کے لیے ہمارا ساتھ دیجیے۔ کیونکہ واحد جماعت اسلامی ہی ہے جو اللہ کی حاکمیت اور نبی کی شریعت کے مطابق حکومت قائم کر کے وقت کے تھکے ہوئے منتظر انسان کو راہ اختیار بتا سکتی ہے۔ اور اسلام کے ذریئے ہی پاکستان تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔