پیچیدہ منصوبے کی تکمیل اور اسکے ثمرات

چین کی وزارت آبی وسائل نے ابھی حال ہی میں بتایا کہ، ملک کے جنوب سے شمال تک پانی موڑنے کے منصوبے کے پہلے مرحلے نے کامیابی کے ساتھ اپنے درمیانی راستوں سے 67 بلین کیوبک میٹر سے زیادہ پانی شمالی علاقوں تک پہنچایا ہے، جس سے 17 کروڑ سے زیادہ افراد مستفید ہو رہے ہیں۔اس پیچیدہ منصوبے کی تشکیل میں برسوں لگے، جس میں دریائے یانگسی کے نشیبی، درمیانی اور بالائی علاقوں سے پانی کو مشرقی، درمیانی اور مغربی موڑ کے راستوں سے شمال کے مختلف علاقوں کی جانب موڑنا شامل تھا۔پانی کے وسائل کی تقسیم کا یہ جامع نیٹ ورک دریائے یانگسی، دریائے ہوائی، دریائے زرد، اور دریائے ہائیکو کو جوڑتا ہے، جو چار افقی دریاؤں اور تین عمودی نہروں کا ایک نمونہ بناتا ہے۔تقریباً 06 بلین کیوبک میٹر پانی کے موڑ کے ساتھ، چین کے شمالی علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کے رجحان کو مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کے جامع انتظام میں مدد ملی ہے۔اس کے علاوہ، پچاس سے زیادہ دریاؤں میں 9.8 بلین کیوبک میٹر سے زیادہ پانی کے داخلے نے خشک سالی سے دوچار متعدد جھیلوں اور ندیوں کو زندہ کیا ہے، جس سے ارد گرد کا ماحول نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے۔

اس شان دار منصوبے پر عمل درآمد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے جنوبی علاقے آبی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں جبکہ شمال کے اکثر علاقوں کو پانی کی قلت کا سامنا رہتا تھا۔ملک کی اعلیٰ قیادت نے اس صورتحال کے ادراک سے ایک عظیم الشان ” ساؤتھ ٹو نارتھ واٹر ڈائیورژن پروجیکٹ” کا آغاز کیا جو آج کروڑوں چینی شہریوں کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کر رہا ہے۔یہ تو محض ایک آبی منصوبہ ہے، حالیہ سالوں میں چین میں آبی وسائل کی بقا اور تحفظ کے سلسلے میں تاریخی کامیابیوں کے نمایاں ثمرات برآمد ہوئے ہیں۔

چین نے اس دوران، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے، پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے، سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ کے موئثر اقدامات اپنانے اور آبی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ہمہ جہت نظام تشکیل دیا ہے۔آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے درپیش مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ملک نے عالمی سطح پر میٹھے پانی کے مجموعی وسائل کے صرف 6 فیصد میں سے دنیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کیا ہے۔اس نظام کا ایک بڑا فائدہ اس صورت میں بھی سامنے آیا ہے کہ چین نے گزشتہ دہائی میں طاس پر مبنی روک تھام کے نظام میں مسلسل بہتری، قبل از وقت انتباہی اقدامات، مشقوں اور پیشگی منصوبہ بندی کی مضبوطی اور پانی کے تحفظ کے بنیادی ڈھانچے کو سائنسی اور درست طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے بڑے سیلابوں پر قابو پایا ہے۔اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں پینے کے محفوظ پانی کا دیرینہ حل طلب مسئلہ حل ہو چکا ہے، صاف پینے کے پانی کا مسئلہ جو کروڑوں دیہی باشندوں کو نسلوں سے درپیش تھا، تاریخی طور پر حل ہو چکا ہے۔ محدود آبی وسائل کے ساتھ، پانی کا تحفظ چین کے ایجنڈے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔اس ضمن میں 2019 میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایکشن پلان جاری کیا گیا اور کئی محاذوں پر کوششیں کی گئی ہیں، جن میں زراعت، صنعت، شہری علاقوں اور دیگر اہم شعبوں میں پانی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سائنسی ٹیکنالوجی کی اختراعات شامل ہیں۔

اس تناظر میں چین کی اعلیٰ قیادت کے رویے بھی قابل تقلید ہیں جو عوام کو باور کرواتے ہیں کہ ہم نے فطرت کی قیمت پر ترقی نہیں کرنی ہے بلکہ ایسی اقتصادی سماجی ترقی کو پروان چڑھانا ہے جو فطرت سے ہم آہنگ ہو۔ چین کے اعلیٰ رہنما تواتر سے ان آبی وسائل کے حیاتیاتی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں اور موقع پر ہی احکامات صادر کیے جاتے ہیں۔اس طرح متعلقہ حکام بھی آبی زخیروں بالخصوص دریاوں کے تحفظ کے لیے ہمیشہ چوکس رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ کسی بھی وقت ان سے بازپرس کی جا سکتی ہے اور غفلت کا کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں 12 لاکھ سے زائد افراد کو دریاؤں اور جھیلوں کے سربراہوں کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، تاکہ ملک میں پانی کے ایسے ذخائر کے ماحولیاتی تحفظ سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور مقامی حالات کے مطابق آبی آلودگی سے نمٹنے اور آبی ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے درست اقدامات کیے جا سکیں۔پانی کے تحفظ میں چین کی کامیابیاں اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں فطرت اور مادی ترقی میں ہم آہنگی کے تصور پر عمل پیرا ہے۔