بلاشبہ دنیا نت نئے تجربات احساسات رجحانات اور حقائق سے بھری پڑی ہے۔ نیا شہر نئے لوگ نئی باتیں نئے احساسات نئی خواہشات نئی امنگیں نئے ترانے نئے خیالات نئے جذبات نئی چاہ نئی ہیں سب کچھ تو نیا ہی تھا وہاں ۔۔۔یہ بات ہے میرے پچھلے ہفتے سرگودھا کے سفر کی ، ہاں شاید ایک دفعہ میں گئی تھی جب سعد تین سے چار ماہ کا تھا دو دن کے لیے۔۔۔لیکن صرف دو دن کسی بھی جگہ کو جانچنے کے لیے ناکافی ہی نہیں بہت ہی کم ہوتے ہیں تھکن سے چور ہم واپس پہنچے ایک برا خواب سمجھ کے اس ٹرپ کو بھلا دیا۔ پھر پانچ سال بعد اللہ نے موقع دیا اور ہم پھر نئے جذبوں کےساتھ پنجاب کی سرزمین سرگودھا پہنچے۔ چار دن اپنی سفر و دوسری مصروفیات کے بعد پانچویں دن خیال ایا کہ کیوں نہ میں یہاں پہ موجود دار ارقم کی پرنسپل جنہوں نے مجھ سے اپنی کتابیں منگوائی تھی “پھولوں نے خوشبو مہکائی” میری کتاب کا نام ہے ۔ اور انہوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا۔ پھر اپنے اسکول کے لیے بیس اسیٹس منگوائے تھے۔ میں نے یہی سوچ کے ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی۔ میسج کیایہیں پہ سابقات کے گروپ پہ اور الحمدللہ دارارقم کی پرنسپل محترمہ فرحانہ قاسم سے م ملاقات ہوئی ۔ دارارقم عائشہ کیمپس کا قیام 1990 میں عمل میں آیا۔ یہ سب سے پہلا اسکول تھا جو اظہار الحق صاحب اور انکے دوستوں نے تنظیم میں موجود خاندان اور معاشرے میں اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے شروع کیاتھا۔ الحمدللہ اب یہ میٹرک انٹر سے ہوتاہوا یونیورسٹی لیول تک پہنچ گیاہے۔۔۔اللہ اس کیمپس کو مزید ترقی دے۔آمین
خیرہمارا بلاوا آیاتو ہم تو ویسے ہی تیار بیٹھے تھے ۔ گاڑی نیو سیٹیلائٹ ٹاؤن سے ہوتے ہوئے اولڈ سیٹیلائٹ ٹاؤن عائشہ کیمپس پہ آکر رکی۔ میں اپنی چھوٹی عائشہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی ۔ بے انتہا خوبصورت اسکول اور بچیاں وہاں پہ مختلف کھیل کھیل رہی تھیں۔ کھیلوں کے اختتام کا اخری دن تھا اس سے اگلے دن ٹرافیاں تقسیم ہونی تھی۔ مجھے اندر لے جایا گیا پرنسپل روم پہ شاندار استقبال کیا گیا ہے جیسے کوئی بڑی شخصیت تشریف لاتی ہے بالکل اسی طرح سے۔۔۔اور پھر ایک انگریزی کی ایچ او ڈی ائی اور انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور پھر مجھ سے ملی مجھ سے خیر خیریت پوچھی سفر کا پوچھا میں نے کہا الحمدللہ سفر بہت اچھا گزرا اس کے بعد انہوں نے مجھے بٹھایا اس کے بعد فرحانہ قاسم پرنسپل دار ارقم سرگودھا مدر کیمپس کی پرنسپل تشریف لائیں ماشاءاللہ جتنی ان کی شخصیت خوبصورت ہے اتنا ان کا بات کرنے کا انداز بھی بہت ہی پیارا ہے انہوں نے مجھے بڑے تپاک سےگلے لگایا، میرے سفر کے متعلق پوچھا ، مجھ سے ملنے کو انہوں نے اتنا اہم جانا کہ وہ اپنا گھر بار اور اپنی چیزوں کو چھوڑ کر مجھ سے ملنے ائییں۔اللہ انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔کیونکہ سپورٹس تھا تو اس وجہ سے پرنسپل نہیں ائیں تھی ۔کل ان کا نتائج کا اعلان ہونا تھا اس لیے انہیں نہیں انا تھا اس کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ لیکن صرف میری ایک فون کال پہ انہوں نے مجھے بلوالیا۔ وہ خود بھی ائی اور وہ اپنے اپنی ساری ٹیچرز کو انہوں نے بلایا باری باری وقتا فوقتا میں نے تمام ٹیچرز سے ملاقات بھی کی ۔ اپنا تعارف کروایا ان کا تعارف لیا بہ مشکل ایک گھنٹے کا میری ملاقات نشست رہی لیکن یہ پورے سرگودھا کی میرے ٹرپ پہ بھاری ہے یہ اتنے بہترین ملاقات اتنے اچھے لوگ اور اتنی اچھی انہوں نے مجھ سے باتیں کی۔ ہم نے بہت سے موضوعات پر بات چیت کی جن میں پاکستان کی موجودہ صورتحال، امت مسلمہ کے اہم مسائل، فلسطین میں انسانیت کا قتل عام اور مسلم حکمرانوں بے حسی پر اپنا کردار۔۔۔۔اور کراچی وہ بار بار فرحانہ انٹی بار بار کراچی کی کراچی والوں کی کراچی کی تنظیم و جماعت اسلامی کی تعریف کرتی رہی اور ہماری حوصلہ افزائی کرتی رہی اور ہمارا حوصلہ بلند کرتی رہیں۔بیٹھک اسکول کا تعارف میرااعزاز بنا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں بیٹھک اسکول کی پرنسپل ہوں تو فرحانہ میڈم بہت خوش ہوئیں اور اسکول کے مینجمنٹ سے متعلق بات چیت کرتی رہیں۔ ان سے ملاقات میں ہم خود کو بہت زیادہ کوئی اہم شخصیت تصور کرتے رہے۔۔۔انکی ٹیچر مس رانا میری عائشہ کو اپنا اسکول دکھاتی رہیں۔ اس لئے اسنے مجھے پورے وقت ایک بار بھی تنگ نا کیا۔۔۔۔مجھے اس پورے ٹرپ میں جوچیز سب سے زیادہ پسند ائی وہ دارارقم عائشہ کیمپس کے تمام اسٹاف کا خلوص محبت اور عقیدت و احترام۔۔ ۔ہمیں رخصت کرتے وقت ایک یادگاری تحفہ بھی دیا۔۔اسکول کا نیوز لیٹر اور اسکول کا مگ اور بچوں کے لئے پاکستانی بسکٹ اور چپس۔۔۔ یہ یادگاری مگر ہمیں برسوں اس سفر کو یاد دلاتارہےگا۔اس خشبو بھری ملاقات اسےمیرا انگ انگ چہک اٹھا اور اس ملاقات سے زندگی کے کئی در وا ہوئے۔ امید کرتی ہوں ہم جنتوں میں بھی اسی طرح اکٹھے ہوں گے۔