زبان اور لکھائی میں استادوں کی حیثیت رکھنے والے، وسعت اللہ خان صاحب کو کون نہیں جانتا ، تعارف کے محتاج نہیں۔بی بی سی پر جناب کا گزشتہ ہفتے کا موضوع پڑھا ،سوچا کچھ اپنی رائے بھی دے دی جائے۔
وسعت اللہ خان صاحب لکھتے ہوئے کہتے ہیں اب سوال و جواب کا دائرہ کار صرف اپنے والدین اور مقدس عدلیہ تک محدود نہیں رہا بلکہ اب فیس بک اور ٹوئٹر دارالعلوم کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کے ممبران کو اپنے مسلمان ہونے کی گواہی روز دینا پڑتی ہے۔
تو جناب محترم میں فیس بک اور ٹوئٹر کا پچھلے چھ سال سے ممبرہوں ۔ پوسٹ اپ لوڈ کرتا رہتا ہوں تاکہ اپنی رائے سے دوستوں کو آگاہ کیا جاسکے ۔میں اس سے قبل اپنی بات کو آگے بڑھاؤں، بتاتا چلوں کہ صحافت کا طالب علم ہوں اور لکھتے ہوئے کوشش ہوتی ہے کہ غیر جانبدار رہوں ۔
تو عرض ہے کہ ان چھ سال میں ، میں نے ایسی بے شمار رائے دی ہیں جن سے میرے دوست اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن میں اپنی آرا ء میں چند چیزوں کو ملحوظ خاطر بھی رکھتا ہوں۔
کسی فقہہ کے بارے میں رائے دوں تو تنقید کا دائرہ ایسا ہو کہ اس کے ماننے والے کسی فرد کو یہ ابہام نہ رہے کہ اسے گالی دی گئی ہے۔ مذاہب کا معاملہ انتہائی نازک اور کئی علوم کا احاطہ کئے ہوتا ہے ، بغیر پڑھے بات نہیں کرتا،احتیاط برتتا ہوں کہ جو فیصلے اور فتوے دینا علما کا کام ہے وہ ذمے داری میں ادا نہ کروں کیونکہ اس سے علما مذاہب کے اس وقت کو ٹھیس پہنچتی ہے جو انھوں نے آٹھ دس سال مدرسے کی پڑھائی میں صرف کیا ہوتا ہے اس کے علاوہ پھر عمر کے حساب سے کم یا طویل مشاہدات اور دینی مسائل کو حل کرنے کے تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔
ایک اور بات جس پر ثابت قدم رہتا ہوں کہ ختم نبوت پر پکا ایمان رکھوں، خلافت کی درجہ بندیوں اور اہل بیت کے موضوعات پر بالکل بھی بات نہ کروں۔
مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں، میں ہوں قادری ٹن ٹن ٹناٹن ، صلو علی الحبیب ، دھم دھم ، ھو ھو، نعرہ حیدری، الجہاد والجہاد یا رائے ونڈ میں مچھردانی، کیتلی، کمر پر بھاری بھرکم بیگ پہنے ،چہرے پر داڑھی اور ہونٹ پر ویکسنگ کرائے افراد پر بات کرکے ایک کی دلچسپی اور دوسرے کی ناراضگی کاسبب بنوں یاپھر تمام ہی کو جانبدار نظر آؤں جس سے مجھے روز صبح اٹھ کر جامعہ فیس بک اور دارلعلوم ٹوئٹریہ پر اپنے مسلمان ہونے کی گواہی دینا پڑے۔
دوسری عرض یہ کہ آپ نے لکھا کہ “آپ سے حساس ادارے شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں تعریف اور ملکی مفاد کے حوالے سے بھی کچھ لکھ دیا کریں”
تو جناب آپ کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کیونکہ آپ شاید اس موضوع پر لکھنا نہیں چاہتے۔ میں آپ کو ایک عرصے سے پڑھ رہا ہوں لیکن کبھی نظر سے نہیں گزرا کہ آپ نے کبھی کچھ اچھے لفظوں میں بہادر فوج اور خفیہ طریقوں سے ملکی آن برقرار رکھنے والوں کو یاد کیا ہو۔ کل سوات کے اسپورٹس یونٹ میں ہوئے بم دھماکےمیں شہید فوجیوں کی شان میں کوئی قصیدہ لکھ دیتےیا ان کی دلیر ماؤں کے حوصلے کی تعریف کردیتے۔
ایک ماں اپنے بچے کو جب فوج میں بھیجتی ہے تو رخصت کرتے وقت ،اپنے اپنے انداز میں قوم کے بہادر بیٹوں کو ایک نصیحت لازمی کرتی کہ وہ اپنے پاک وطن کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے چاہے اپنی جان کے نذرانے کیوں نہ پیش کرنا پڑیں اس سے دریغ نہیں کریں۔
مختصراََ آپ ، وسعت اللہ خان نے اپنی بات میں جان ڈالنے کیلئے ایک ہندی فلم کے ڈائیلاگ کو اپنے موضوع کی سرخی بنالیا لیکن میں اپنی بات کو یوں ختم کررہا ہوں کہ میرا وطن مجھے کھانے کو پاک رزق، رہنے کو زمین، عبادات کیلئے کھلی چھٹی اور تہواروں کو منانےکے یکسر مواقع فراہم کرتا ہے اس لئے میں اپنے پاک وطن کاایساوفادار کتا ہوں جو اپنے مالک کے کہنے پر کسی پر بھی بھونکے گا اورکئیوں کو کاٹوں کا بھی ایسے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے یا بھارتی خفیہ ادارے را کے لکھاری اپنے آقاؤں کے پاس بھاگ کھڑے ہوں گے۔