کروکالا سے کولاچی اور کولاچی سے کراچی بننے تک کی طویل داستان۔۔۔ قدرت کی جانب سے بخشی گئی بندرگاہ کی وجہ سے کروکالا سے کولاچی نامی اس گاؤں کو کراچی بننے میں کئی صدیاں گزریں۔
محققین کی رائے کے مطابق کراچی آخری برفانی دور کے خاتمے پر سمندر کے کنارے نمودار ہونا شروع ہوا ویسے تو کراچی کے آثار سکندر اعظم سے بھی پہلے کی ملتے ہیں اور ملیر وادی کی تاریخ قدامت کے اعتبار سے قدیم پتھروں کے وسطی دور سے شروع ہوتی ہے تاہم 326 قبل مسیح میں جب سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد اپنی فوج کی واپس بابل روانگی کی تیاری کے لیے خیمہ زن ہوا۔ اس وقت کراچی کا نام ’کروکالا‘ تھا، جس کا مقامی زبان میں مطلب واگھو (دیوتا) کے ہیں. جرنل نیرکس نے اپنے قیام کے دوران اس کا نام تبدیل کر کے اپنے بادشاہ کے نام پر ’سکندری جنت‘ رکھ دیا. اور بندر مرونتوبارا ( ممکنہ کراچی کی بندرگاہ کے نزدیک جزیرہ منوڑا یا پھر باربا ریکون جو ہندوستانی یونانیوں کی باختری مملکت کی بندرگاہ تھی جس کو عرب بندرگاہ دیبل کے نام سے جانتے تھے جہاں سے محمد بن قاسم نے 712 میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا) اس جگہ سے سکندر اعظم کا سپہ سالار “نییر کس” واپس اپنے وطن کے لیے روانہ ہوا۔
کراچی کی تاریخ کی بات کی جائے تو یہ ممکن نہیں کہ محمد بن قاسم کا ذکر نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم کم عمری میں مسلمان عورتوں کو راجہ داہر کے قید سے آزاد کرانے حجاز مقدس سے دیبل کی بندرگاہ پر اترا اور راجہ داہر کو عبرت ناک شکست دیتے ہوئے ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔ آج بھی کراچی کے گردو نواہ میں دیبل کی بندرگاہ اور اس جگہ پر بنائی گئی ایشیا کی پہلی مسجد کے آثار ملتے ہیں۔ جب محمد بن قاسم نے دیبل کی بندرگاہ پر حملہ کیا تو اپنا ساز و سامان کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے اتارا اور کراچی کی بندرگاہ کو ’دربو‘ کا نام دیا. یوں کراچی کا ایک نیا نام رکھ دیا گیا.
یہ بات ہے سن 711ع کی جب گاؤں کے قریب بندرگاہ ہونے کی وجہ سے ماہی گیر اس جگہ کو تجارت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ دراصل کراچی شہر بلوچستان اور مکران کے بلوچ قبائلیوں سے آباد ایک ماہی گیری گاؤں تھا اور اس کا گڑ دریائے سندھ کے قریب تھا۔ بلوچستان میں موجود بہت سے ماہی گیر اس وقت بندرگاہ کے قریب آباد ہونے کی غرض سے ہجرت کر کے اس گاؤں میں داخل ہوئے لیکن ایک ماہی گیر کی بیوی کی بہادری کے ناقابل فراموش واقع نے اس علاقے کو ایک نئی پہچان دی۔ ہوا کچھ یوں کہ ماہی گیروں کا ایک گروہ مچھلی کے شکار پر گیا لیکن سمندری طوفان کی زد میں آگیا ۔ مائی کولاچی جو کہ بلوچستان میں مقیم ایک ماہی گیر کی بیوی تھیں سب سے مدد کی اپیل کی لیکن جب کسی میں ان کی مدد کرنے کا حوصلہ پیدا نہ ہوا تو خود اکیلی ہی مدد کے لیے پہنچیں اور شوہر سمیت سب کو زندہ بچا لائیں۔ اس خاتون نے تجارتی مقاصد کے لیے ماہی گروں کا ایک گروہ بھی تشکیل دیا جس کا کام ماہی گیروں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ مائی کو لاچی کے انتقال کے بعد اس جگہ کو مائی کولاچی کے نام سے پکارا جانے لگا جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو کر آج کا کراچی بن گیا۔ آج بھی اس گاؤں میں ماہی گیروں کی نسل عبداللہ گوٹ کے جزیرے پر آباد ہے جن کے دلوں میں مائی کولاچی کی یاد اب بھی تازہ ہے۔
سندھ میں عرب دور تقریباً 300 سال پر محیط رہا۔ اس پورے عرصے میں کراچی کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا سوائے عباسی دور میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کی شہادت کے، جن کا مزار آج بھی کراچی میں کلفٹن کے مقام پر موجود ہے.
1027ع میں محمود غزنوی نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد سندھ پر بھی حملہ کیا اور اسے فتح کر کے عربوں کو نکال باہر کیا، یوں اس جگہ 1194ع تک محمود غزنوی کے خاندان کی حکومت چلتی رہی. 1194ع میں سندھ دوبارہ ہندوستان کی سلطنت کے زیرِ اثر آگیا اور شہاب الدین غوری کے بعد خاندان غلامان کے زیر اثر چلتا رہا اس پورے دور میں کراچی کے مزید نام تبدیل ہوتے رہے.
جب سندھ نے 18ویں صدی کے آخر میں مسقط اور خلیج فارس کے ساتھ سمندر پار تجارت شروع کی تو کراچی کو اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس کی حفاظت کے لیے مسقط سے درآمد کی گئی چند توپوں کے ساتھ ایک چھوٹا قلعہ بنایا گیا تھا۔ قلعہ کے دو اہم دروازے تھے: ایک سمندر کی طرف، جسے کھارا در (بریکش گیٹ) کہا جاتا ہے اور دوسرا ملحقہ لیاری ندی کی طرف، جسے میٹھا در (میٹھا دروازہ) کہا جاتا ہے۔ ان دروازوں کا محل وقوع بالترتیب کھارادر ( کھرا در ) اور میٹھادر (میٹھا در) کے موجودہ شہر کے علاقوں سے ملتا ہے۔ اس دور کے بعد سندھ پر سومرا خاندان ، سما خاندان ، ارغون خاندان ، ترخان اور تالپور خاندان اور کلہوڑاخاندانوں نے بھی حکومت کی۔
لیاری نے اپنے سینے میں قدیم آثار کی جھلک دکھا دی ہے یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران ایسی تہذیب کے آثار ملے ہیں جو 4500 (چار ہزار پانچ سو) قبل مسیح میں لیاری سے اورنگی، منگھوپیر اور حب ندی تک پھیلی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دریائے لیاری اور معاون کے برساتی پانی کو قریب واقع سمندر میں گرنے سے پہلے بھرپور طریقے پر اسے زراعت کے لیے استعمال کیا۔
پانی کی کمی نے جب زراعت کو متاثر کیا تو یہاں کے لوگوں نے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دوسرے ہنر سیکھ لیے اب یہاں لہلہاتے کھیتوں کی جگہ صنعتیں نظر آنے لگیں۔ چمڑا بنانے اس کو رنگنے کے کارخانے چمڑے اور کپڑے کے رنگ تیار کرنے کے کارخانے اور تیل نکالنے کی چکیاں قائم ہونے لگیں۔ ہوا کچھ یوں کہ 1795 میں، کولاچی-جو-گوٹھ قلات کے کنٹرول سے سندھ کے تالپورحکمرانوں کے پاس چلا گیا۔ انگریزوں نے جنوبی ایشیا میں مہم جوئی کرتے ہوئے ستمبر 1799 میں یہاں ایک چھوٹی فیکٹری کھولی، لیکن حکمران تالپوروں کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے اسے ایک سال کے اندر بند کر دیا گیا۔ تاہم، دریائے سندھ پر واقع اس گاؤں نےبرطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی جس کے بعد اس علاقے میں چند ریسرچ مشن بنائے گئے جس سے اس علاقے کو مزید مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس علاقے میں کچھ تحقیقاتی مشن بھیجنے کے بعد، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 3 فروری 1839 کو اس شہر کو فتح کر لیا۔ برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کرلیا چار سال بعد یعنی 4 فروری1843 میں اس شہر کو انگریزوں نے سمندری راستے سے بمبئی سے ملا دیا اور اس کو ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔
کیا وجہ تھی کہ انگریزوں نے کراچی کی ڈیویلپمنٹ کے لیے اس قدر کام کیا جس کے جواب میں سینیئر ڈائریکٹر کی ایم سی علی حسن ساجد کا کہنا تھا کہ:”کراچی ساحل سمندر پر واقع ہے اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ کراچی کو جو سمندر لگتا ہے اس کا پانی 12 مہینے گرم رہتا ہے اور جن سمندروں کا پانی گرم رہتا ہے ان کے نزدیکی شہروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ تجارت ایسے ہی شہروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سارے شہر ایسے موجود ہیں جہاں پانی تو ہے لیکن سال میں آٹھ مہینے ان سمندروں کا پانی جمع رہتا ہے لیکن کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں 12 مہینے ہی سمندر کا پانی گرم رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ شہر تجارت کے لیے بہت موزوں ہے “۔
1857 میں، جنوبی ایشیا میں ہندوستانی بغاوت پھوٹ پڑی اور کراچی میں تعینات 21 ویں مقامی انفنٹری نے 10 ستمبر 1857 کو باغیوں کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود، انگریز تیزی سے کراچی پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے اور بغاوت کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔ کراچی کو ابتدائی برطانوی نوآبادیاتی دور میں خراچی سندھے (کرراچی، سندھ) کے نام سے جانا جاتا تھا۔
10 مارچ 1865 میں فریئر ہال کی تعمیر کی گئی۔ 2 جولائی 1872 میں کراچی پورٹ کلب کی تعمیر ہوئی اس وقت تک کراچی کی مجموعی آبادی 65384 تھی۔ ۔1876 میں پاکستان کے بانی محمد علی جناح اس شہر میں پیدا ہوئے جو اب تک مندروں، مساجد، گرجا گھروں، درباروں، بازاروں، پکی گلیوں اور ایک شاندار بندرگاہ کے ساتھ ایک ہلچل والا شہر بن چکا تھا۔2 جنوری 1880 میں ریلوے کے نظام میں بقیہ ہندوستان سے جوڑ دیا گیا۔ 15 ستمبر 1889 کو برٹش راج میں صدر میں واقعہ ایمپریس مارکیٹ کو تعمیر کیا گیا جس کو کوئن الیگزانڈر وکٹوریہ ، لقب ایمپریس آف انڈیا کے نام سے رکھا گیا جوکہ آج بھی ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
سینئر ڈائریکٹر علی حسن ساجد کا کہنا ہے کہ: “کراچی کی تاریخی عمارات جیسے فریر ہال، امپریس مارکیٹ، میری ویدر ٹاور، موہٹا پیلس، ڈینسو ہال، کلاک ٹاور، خالق دنا ہال ، وزیر منشن ، کے ایم سی بلڈنگ اور کلفٹن پہ موجود ابن قاسم جہاں ٹریڈ ہے ہماری تو یہ سارے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کراچی شہر بہت روشن رہا ہے۔ اس کی تاریخ اس شہر کی تہذیب نے بہت ترقی کی ہے اور آج یہ شہر آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جہاں کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور میں یہ کہوں گا کہ پاکستان کی پہچان ہے کراچی شہر”۔
1923 تک، کراچی برطانوی سلطنت کی سب سے بڑی اناج برآمد کرنے والی بندرگاہ بن چکی تھی۔ 1924 میں، ایک ایروڈروم بنایا گیا اور کراچی برطانوی راج میں داخلے کا مرکزی ہوائی اڈہ بن گیا۔ جب ہم نے کراچی کی اہمیت کے بارے میں سینئر ڈائریکٹر( کے ایم سی) سوال کیا تو انکا کہنا تھا کہ:
“اس شہر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی ایشیا کا گیٹ وے ہے اور اس شہر کے ذریعے افغانستان ایران چین انڈیا اور دیگر ممالک بڑی آسانی سے تجارت کرسکتے ہیں “۔
پرانے کراچی کی بات کی جائے اور ٹرام کو یاد نہ کیا جائے یہ ممکن نہیں۔ دراصل ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی کی جانب سے 10 اپریل1885 کو کراچی میں ٹرام سروس کا افتتاح کیا گیا، ابتدا میں ٹرام اسٹیم انجن پر چلتی تھی لیکن فضائی آلودگی اور شہریوں کی تکلیف کے پیش نظر ایک سال بعد ہی اسے گھوڑوں پر منتقل کردیا گیا یعنی ہر ٹرام کے آگے دو گھوڑوں کو باندھا جاتا جو اسے کھینچ کر منزل تک پہنچانے کا کام دیتے اور ایک عرصہ تک ٹرام کو چلانے کے لئے گھوڑوں کا استعمال کیا گیا۔1910میں پہلی مرتبہ ٹرام کو پیٹرول انجن پر منتقل کیا گیا اور پھر1945 میں اسے ڈیزل انجن سے چلایا جانے لگا۔ ابتدا میں ٹرام کیماڑی سے ایم اے جناح روڈ تک چلا کرتی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھایا گیااور اس طرح ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی پورا ٹرامنصوبہ کراچی کے شہری محمد علی چاؤلہ کو فروخت کرکے رخصت ہوگئی اور 30 اپریل 1975 تک ٹرام کا سارا نظام محمد علی ٹرام وے کمپنی کے پاس ہی رہا۔
اس حوالے سے ہماری بات رفیق بلوچ سے ہوئی جنہوں نے خود اس ٹرام میں سفر کیا ہے انکا کہنا تھا کہ: “مجھےوہ دور بھی یاد ہے جب ٹرام چلتی تھی میں کلکتہ گیا ہوں دو تین مرتبہ وہائی بازار تھا بنڈی بازار۔اس کے اندر سے ٹرام چلتی تھی۔ یہاں برٹش نے اتنا اچھا نظام کیا ہوا تھا کہ جو سفر آج گھنٹوں میں طے ہوتا ہے وہ سفر کچھ منٹوں میں ہی طے ہو جایا کرتا ۔ابتدا میں ٹرام کیماڑی سے ایم اے جناح روڈ تک چلا کرتی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھایا گیااور اس طرح ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری والدہ مجھے ٹرین میں بٹھا کر صدر سے لیاری لے جایا کرتیں تو تقریبا آدھے گھنٹے میں ہم صدر سے لیاری پہنچ جایا کرتے لیکن اب تو تقریبا ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں صدر سے لیاری پہنچنے میں۔
میں بہت زیادہ ناسٹلجیا میں رہنے والا آدمی نہیں ہوں۔ مگر میں اپنی چند بچپن کی یادوں کو بھلا نہیں پاتا ۔ خاص طور پر میرا کراچی کی مرحوم ٹرام سے جو ایک تعلق تھا میں آج بھی بھول نہں پایا۔ ٹرام جو ہمارے سفر کا سب سے بڑا زریعہ تھی۔ جب ہم نے کراچی میں اسکول جانا شروع کیا تو ہم ٹرام کے سفر کے لیے محمد علی ٹرام وے کے مرکزی دفتر جو پلازا سینما کے قریب بندر روڈ { اب ایم ای جناح روڈ} پرایک طویل قامت لال رنگ کی عمارت میں ہوا کرتا تھا۔ ہم وہاں سے ماہنامہ سفری ” پاس ” بنوانے جایا کرتے تھے۔ طالب علوں کے اس سفری پاس/ کارڈ کا رنگ گلابی ہوتا تھا۔ اس زمانے میں طالب علوں کے لیے شاید ایک مہینے کے لیے یہ سفری پاس ایک یا سوا روپیہ کا بن جاتا تھا اور ہم بچے اکثر جب بھی وقت ملتا اسکول کے بعد اس پاس کو دکھا پر پورے شہر میں گھوما پھرتے تھے۔ اس زمانے میں کراچی کی ٹرام سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہوا کرتی تھی”۔
امپیریل ایئر شپ کمیونیکیشن اسکیم کے تحت 1927 میں کراچی میں ایک ایئر شپ مستول بھی بنایا گیا تھا، جسے بعد میں ترک کردیا گیا۔ 1936 میں سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے الگ کر کے کراچی کو دوبارہ سندھ کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ 1947 میں، جب پاکستان نے آزادی حاصل کی، کراچی ایک ہلچل والا میٹروپولیٹن شہر بن گیا تھا جس میں خوبصورت کلاسیکی اور نوآبادیاتی یورپی طرز کی عمارتیں شہر کے راستوں پر کھڑی تھیں۔ جیسے ہی آزادی کی تحریک اپنے اختتام کو پہنچی، شہر کو اکثریتی مسلمانوں اور اقلیتی ہندوؤں کے درمیان بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں اکثر آنے والے مسلمان پناہ گزینوں نے نشانہ بنایا۔ ہندو تسلط، شناخت کے خود تحفظ کے سمجھے جانے والے خطرے کے جواب میں، صوبہ سندھ برطانوی ہندوستان کا پہلا صوبہ بن گیا جس نے پاکستانی ریاست کے قیام کے حق میں قرارداد پاکستان پاس کی۔ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد، اقلیتی ہندو اور سکھ ہندوستان ہجرت کر گئے اور اس کے نتیجے میں کراچی کا زوال ہوا، کیونکہ کراچی میں کاروبار پر ہندوؤں کا کنٹرول تھا، جب کہ ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ جب کہ بہت سے غریب نچلی ذات کے ہندو، عیسائی، اور مالدارررشتی(پارسی) شہر میں رہ گئے، کراچی کے سندھی ہندو ہندوستان چلے گئے اور ان کی جگہ مسلم مہاجرین نے لے لی، جو بدلے میں، ہندوستان کے علاقوں سے پاکستان آ گئے تھے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔اس وقت کراچی کی آبادی 405500 تھی۔ آہستہ آہستہ شہر کی آبادی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا جب ہندوستان سے لاکھوں مسلمان مہاجرین مسلم دشمنی کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے دیگر حصوں سے بھاگ کر کراچی آکر آباد ہوئے۔ اس کے نتیجے میں شہر کی آبادیات بھی یکسر تبدیل ہو گئیں۔ حکومت پاکستان نے محکمہ تعمیرات عامہ کے ذریعے مسلم مہاجرین کو آباد کرنے کے لیے زمین خریدی۔ تاہم، اس نے اب بھی ایک عظیم ثقافتی تنوع برقرار رکھا کیونکہ اس کے نئے باشندے جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں سے آئے۔ 1953 تک کراچی بدستور پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ بعدازاں دارالحکومت کو نئے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا۔ 18 جنوری 1958 میں اس وقت کے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا۔ بالآخر 20 جون 1968 کو دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ کراچی کا چڑیا گھر جو گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور ہے وہ اب بھی اسی جگہ موجود ہے۔
گڈاپ ملیر سے شروع ہونے والی ندی کے کنارے چھوٹے پھل دار درخت لگے تھے جن کو سندھی زبان میں لیار اور بلوچی زبان میں لیوار کہا جاتا ہے۔ اس مقام کو لیار بالیوار والا علاقہ کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری کہا جانے لگا۔
ہنرمندوں، محنت کشوں، مایہ ناز کھلاڑیوں، سیاستدانوں، ممتاز مذہبی علما تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے والے رہنما، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو لارنس روڈ پاکستان کوارٹرز میں منتقل کیا گیا۔
پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام سے ناظم آباد کا قیام عمل میں آیا۔ ایک بلوچ لال محمد لالو کے نام سے لالو کھیت آباد کیا گیا،
کیماڑی، میری ویدر ٹاور، کھارادر، میٹھادر، بولٹن مارکیٹ، مولوی مسافر خانہ، عید گاہ بندر روڈ پر ہیں۔ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) قائد اعظم کے مقبرے سے شروع ہو کر کیماڑی پر ختم ہوتا ہے۔
دوسرا پرانا میکلوڈ روڈ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان تقریباً تمام بینکوں کے ہیڈ آفس اور جی پی او، ٹیلی گراف آفس وغیرہ یہ تمام اسی روڈ پر ہیں۔ برنس روڈ آتما رام پریتم داس روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، میکلوڈ روڈ پر حبیب بینک پلازہ، پاکستان ریلوے کا سٹی اسٹیشن، فریر ہال کی طرف سے کلفٹن کو جاتے ہیں۔
وکٹوریہ روڈ جوکہ اب زیب النسا اسٹریٹ(روڈ) کے نام سے منسوب ہے۔ ریڈیو پاکستان بالکل ویسا ہی موجود ہے اس کے برابر میں جانوروں کا اسپتال برطانیہ کے دور سے آج بھی قائم ہے، بعد میں سول اسپتال، کراچی میڈیکل کالج قائم ہوئے۔
’’چلی میری گھوڑا گاڑی، بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ یہ گیت ہے پرانا لیکن آج بھی مشہور ہے۔ بندر روڈ پر ایک مشہور سینما لائٹ ہاؤس ہوتا تھا جو اب نہیں ہے، آگے کے ایم سی کا ہیڈ آفس لال جے پور کے پتھروں سے بنا ہوا ہے ۔ سلوٹ نسل کے لوگوں نے اسے بنایا جن کی اولادیں آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی سٹی عدالتیں ہیں، آگے جوڑیا بازار لی مارکیٹ، بندر روڈ سے دوسری جانب ڈینسو ہال سے نکل کر نیو چالی پر پہنچتے ہیں۔
گروپنج مکھی ہنومان کا مندر، جو آج گرومندر کہلاتا ہے یہاں سے صدر، کلفٹن، قائد اعظم کا مقبرہ آگے وہ تمام عمارات آئیں گی جن کا مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب جامعہ کراچی، اسٹیڈیم، گورا قبرستان، پی ای سی ایچ ایس وغیرہ، ایک طرف سولجر بازار تو دوسری طرف لیاقت آباد، ناظم آباد وغیرہ جاتے ہیں۔
جمشید سراونجی مہتا کے نام سے جمشید روڈ ہے۔ 1922 سے 1933 تک کراچی میونسپل کے منتخب صدر اور کراچی کے پہلے میئر رہے۔ انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد کراچی صدر کے بعد آگے ہولی فیملی کے آس پاس فوجیوں کے لیے بیرکس تعمیر کرائیں مارکیٹ بنی جس کو سولجر بازار کہتے ہیں۔ گستاجی مہتا نے انکل سریا اسپتال بنوایا۔ مرکزی گورنمنٹ نے جناح اسپتال کراچی بنوایا جو رقبے کے لحاظ سے کافی وسیع ہے۔
سینئر ڈائریکٹر (کے ایم سی) علی حسن ساجد کا کہنا ہے کہ: “کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں جب رات ہوتی ہے تو کوئی بھی شخص رکا نہیں ہوتا یہ شہر روشنیوں کا شہر ہے اور کوشش بھی یہی ہے کہ اس کی روشیاں واپس بحال ہوں اور دعا ہے کہ یہ شہر ثقافت اور تمدن کے لحاظ سے ترقی کر کے آگے بڑھے”۔