“مہرو۔۔ دیکھو۔۔!” اس نے ابھی آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک ہی لگائی تھی کہ سمیرا نے ایک دم اسے جھنجھوڑا۔
“کیا ہو۔۔؟” وہ فوراً آنکھیں کھول کر آگے ہوئی۔ سمیرا بس کی کھڑکی سے سر لگائے باہر جھانک رہی تھی۔ وہ بھی اس پر ذرا آگے کو ہو کر جھکی۔
“دیکھو۔۔کتنے لوگ ہیں ۔۔؟ کتنی ساری گاڑیاں اور بسیں ہیں؟” سمیرا نے جوش سے کہا۔
“اور ہم ڈر رہے تھے کہ معلوم نہیں کوئی نکلے گا بھی یا نہیں۔۔۔!” اس نے بھی جوش سے جواب دیا۔ جس پر سمیرا نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
“صرف وہاں نہیں۔۔۔۔ یہاں بھی دیکھو۔۔؟” ثنا جو سامنے والی سیٹ پر موجود تھی۔اس نے اپنے فون کی سکرین ان کی طرف گھمائی۔
“صرف ہمارے شہر سے نہیں۔۔۔ ملک کے ہر شہر سے لوگ نکل رہے ہیں۔” آنکھیں بڑی کر کے کہا۔ اسکرین پر تمام جگہوں کی وڈیوز آرہی تھیں۔
“اور صرف ہمارے ملک سے نہیں۔۔۔ دنیا کے ہر ملک سے لوگ نکل رہے ہیں۔” ثنا نے مزید کہا۔۔ اس کی آواز میں بھی جوش تھا۔
“مسلمان نکل آئے۔۔ دنیا کے ہر کونے سے۔۔ اپنے سپہ سالار کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے۔۔۔!” آگے والی سیٹ پر موجود ماہا نے کہا۔
“مسلمان نکل آئے۔۔ اپنے حرم کی حفاظت کرنے۔۔ علامہ اقبال کی ایک آرزو مکمل ہوئی۔۔۔!” مہر نے خلا میں دیکھتے ہوئے سحر زدہ انداز میں کہا۔
“کون سی آرزو ۔۔؟” سوال پوچھنے والی نمرا تھی۔۔۔جو ثناء کی ساتھ والی سیٹ پر موجود تھی۔
“ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر “
مہرو نے زور سے یہ شعر پڑھا۔۔ ” دیکھیے علامہ صاحب ۔! آپ کا یہ خواب آج اپنی تعبیر کی جانب گامزن ہے۔” بلند آواز سے کہا۔
“تکبیر۔۔” ایک دم سمیرا چلائی۔
“اللہ اکبر۔۔!” ساری بس گونج اٹھی۔
“لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی”
ذہن میں اک شعر اتر آیا۔ مہرو مسکرائی۔ “آگیا علامہ صاحب۔۔۔ وہ مقام ہاتھ آگیا۔۔!”
بسیں ائیر پورٹ پر رک گئیں۔ تمام لوگ اتر آئے۔ مردوں نے سیاہ و سفید رومال چہروں یا گردنوں کے گرد لپیٹ رکھے تھے۔۔اور عورتوں نے حجاب، اسکارف اور نقاب کی صورت سروں پر باندھ رکھے تھے۔ لوگوں کا ہجوم تھا۔
سارا شہر نکل آیا تھا۔
وہ بس سے اتریں تو ان کے لشکر یعنی ان کے علاقے کا ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔ یہ ثناء کا بھائی تھا۔
“کیا ہوا۔۔۔؟” ثناء نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
“خواتین کو روک رکھا ہے۔۔۔ کہہ رہے ہیں واپس لوٹ جائیں۔!” بھائی نے فوراً کہا۔
“پھر۔۔۔؟” نمرا ایک دم چلائی۔۔
“خواتین پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔۔۔؟” اس نے کندھے اچکائے۔
“یہ بات۔۔۔!” ماہا نے جوش سے کہا۔
“آپ سب یہیں رکیں۔ ہم آتے ہیں ابھی۔۔!” مہرو نے مڑ کر اپنے ساتھ آنے والی خواتین کو ہاتھ اٹھا کر مطلع کیا۔
“چلو۔۔؟” اور خود ان چاروں کو لے کر آگے بڑھی۔
اس بھیڑ میں بڑی مشکل سے آگے نکل آئیں تو دیکھا کہ ایک کمانڈر خواتین کو مخاطب کر کے سمجھا رہا تھا۔
“ہم آپ کے جذبے کی قدر کرتے ہیں۔۔ آپ کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔۔ مگر یہ جنگ ہے۔۔ آپ کیا کریں گی وہاں۔۔؟”
“کمانڈر صاحب ۔۔!” مہرو زور سے چلائی۔ “ہم آپ کو وہی جواب دیں گے جو ام زیادؓ نے رسول اللہ ﷺ کو دیا تھا۔۔۔!” اس نے چاروں کی جانب دیکھا۔ پھر کمانڈر کو۔۔۔
“اللہ کے نبیﷺ۔۔۔! ہم سوت کات کر مجاہدین کی مالی مدد کردیں گے۔۔
ہمارے پاس زخمیوں کی دوا دارو، مرہم پٹی بھی ہے۔۔۔
اچھا ! ہم مجاہدین کو ستو گھول کر دے دیں گے۔
آپ سب لڑیں گے تو ہم تیر تھماتے جائیں گے۔۔۔”(بخاری شریف) ” اور ام زیادؓ کے الفاظ دہرائے۔
“اور ان صحابیات کو جنگ میں شریک کر لیا گیا تھا۔” اب ماہا نے جتاتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔
“ام زیادؓ کے اس لشکر کو نہیں روکا جاسکتا۔۔۔!” مسکراتے ہوئے کمانڈر نے کہا۔
تمام خواتین کھلکھلا اٹھیں۔۔۔!
“تکبیر۔۔۔!” سمیرا پھر چلائی۔
“اللہ اکبر۔۔” سارا شہر گونج اٹھا۔
“چلیے پھر ۔۔۔!” کمانڈر نے مائک پکڑ لیا۔ ” اے لوگو۔۔۔! یہ اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا وقت ہے۔ سو جسے اب بھی کوئی شک یا ڈر ہے۔ وہ واپس لوٹ سکتا ہے۔۔۔ ہمارا کسی پرکوئی اختیار ہےنہ اعتراض ہے۔”
وہ ٹھہرے۔۔ مگر کوئی نہیں پلٹا۔
“اے لوگو۔۔! جہاد کا میدان تمہارا منتظر ہے۔۔ وہ میدان کہ جس میں اترنے پر موت حرام ہوجاتی ہے۔ کہ زندگی شہادت کے نام ہوجاتی ہے۔”
وہ جوش دلا رہے تھے۔
“اور اس میدان میں تم ہرگز خوف نہ کھانا۔ دشمن کی تعداد اور ہتھیار کے رعب میں نہ آنا۔ بلکہ دلوں کو اس بات پر مطمئن رکھنا کہ جبرائیل نشان زدہ گھوڑوں پر سوار اپنا لشکر لیے اتر آئیں گے۔ اور آکر تمہارے ساتھ ہو جائیں گے۔” لوگ جوش میں آرہے تھے۔
“تم وہ ابابیل ہو۔۔۔ جس نے ابرہہ کی ہاتھیوں کو روندنا ہے۔۔۔ کیا تم تیار ہو اپنے کعبے کو بچانے کے لیے۔۔؟” کمانڈر نے چیخ کر سوال کیا۔
“ہم تیار ہیں۔۔!” شہر گونج اٹھا۔
“اے لوگو۔۔! مسجد اقصیٰ آپ کو پکار رہی ہے۔۔۔!” کمانڈر نے پھر کہا۔
“لبیک۔۔ لبیک۔۔ لبیک یا اقصیٰ ۔۔؟” شہر گونج رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔! ملک گونج رہا تھا۔۔ نہیں۔۔! سارا جہاں گونج رہا تھا۔
“ہاں۔۔ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ۔۔۔!” مہرو نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ” ہاں یہ وہی مسلماں ہیں۔۔علامہ صاحب۔۔۔ ہاں ہم وہی مسلماں ہیں۔۔!”
“یقین نہیں آرہا کہ ہم جہاد کے لیے جا رہے ہیں۔۔؟ ماہا نے کہا تو وہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
وہ سب جہاز میں تھے جو مصر کی طرف محو پرواز تھا۔ یہیں سے آگے میدان جہاد تھا۔
“واقعی یقین نہیں آتا۔۔! جس مقام کو اقبال تلاش کر رہے تھے۔۔ وہ ہمیں مل گیا۔۔ وہ ساقی وہ جام ہمیں مل گیا!” مہرو نے سوچتے ہوئے کہا۔
“ابھی نہیں ملا۔۔۔! میدان جہاد ابھی باقی ہے۔۔۔! یہ خوف ہر وقت دل کو گھیرے ہوئے ہے۔۔۔ کہ میرے ایمان کا کیا یہ پیمانہ ہے کہ۔۔؟ وہ میدانِ جہاد میں مجھے ڈٹ کر کھڑا رکھ سکتا ہے۔۔۔! اگر خوف مجھ پر طاری ہو گیا۔۔؟؟ اگر میں پلٹ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔۔؟؟” نمرا نے آنکھیں بڑی بڑی کر کے کہا اور ایک جھرجھری لی۔
“حقیقت یہی ہے کہ ہم آج بھی ہزار کے مقابلے میں 313 ہیں۔۔۔!” ثناء نے سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
” تو پھر یہ فتح یقینی ہے۔۔۔جو رب 313 کو ہزار کے مقابلے میں میدان میں اترنے کا حکم دیتا ہے وہی ان پر اطمینان کی بارش بھی کرتا ہے۔۔۔ وہی رب دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب پیدا کرتا ہے۔۔۔ اور وہی غیب سے مدد کرتا ہے۔۔۔!” سمیرا نے حوصلے بڑھائے۔۔۔
“لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی”
ذہن میں اک شعر اتر آیا۔ مہرو مسکرائی۔ “آگیا علامہ صاحب۔۔۔ وہ مقام ہاتھ آگیا۔۔!”
“خواتین کیا آپ مہندی لگانا چاہیں گی۔۔؟” دو ترک خواتیں سامنے کھڑی سب سے پوچھ رہی تھیں۔۔ “یہ ہم ترکوں کی روایت ہے۔۔ہم جنگ کو شادی کی طرح اس کا ایک جشن مانتے ہیں۔۔اور خواتین اس میں بالکل پیچھے نہیں رہتیں۔مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں ہم۔۔!” انہوں نے جوش سے کہا۔۔
“ضرور۔۔۔ کیوں نہیں۔۔!” سب خواتین ان کی طرف بڑھیں۔
“خواتین۔۔! آج ہمارے ہاتھوں پر یہ مہندی کا رنگ ہے۔ کل ان شاء اللہ ان پر یہود کے خون کا رنگ ہوگا۔۔!” مہندی لگاتے ہوئے مہرو نے سب کو مخاطب کیا۔۔۔
“وقت آگیا ہے کہ ان سے حساب لیا جائے۔۔ جنہوں نے خدا کی سر زمین پر خدا کے بندوں کو ستایا۔۔ اور شیطان کا راستہ اپنایا۔” ماہا نے بھی اسکا ساتھ دیا۔
“ان کی تعداد یا ہتھیار ہمیں نہیں ڈرا سکتے۔ کیوں کہ بقول علامہ اقبال کے:
کافر ہو تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ” نمرا نے بھی حصہ ڈالا۔
“چلیں پھر ان کو دکھا دیں کہ۔۔۔۔ مومن جب میدان میں اترتا ہے تو۔۔ اسے ہتھیار کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔! وہ خود ایسا فولاد بن جاتا ہے۔۔۔! جو صحراؤں اور دریاؤں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔۔۔اور پہاڑوں کو رائی میں بدل دیتا ہے۔”
مہرو نے جوش سے کہا۔
“تکبیر۔۔۔!” اب کی بار ثناء چلائی۔۔۔
“اللہ اکبر۔۔۔!” ہوائی جہاز گونج اٹھا۔۔
“ہم لینڈ کرنے والے ہیں۔۔۔ جہاد مبارک ہو خواتین۔۔۔!” ایک ترک خاتون نے کہا۔
“مبارک ہو۔۔۔!” سب نے کہا۔
“لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی”
ذہن میں اک شعر اتر آیا۔ مہرو مسکرائی۔ “آگیا علامہ صاحب۔۔۔ وہ مقام ہاتھ آگیا۔۔!”
“مہرو اٹھو۔۔! چلو۔۔! بس رک گئی ہے۔۔۔!” سمیرا نے کہا۔وہ جلسہ گاہ تک پہنچ چکے تھے۔
“ہاں۔! میں خواب دیکھنے لگ گئی تھی۔۔۔!” مہرو نے اٹھتے ہوئے کہا۔
“کیا سو گئی تھی۔۔؟؟” سمیرا نے پوچھا۔
“نہیں جاگ گئی تھی۔۔!” اس نے کہا۔
“لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی”
ذہن میں اک شعر اتر آیا۔ مہرو نے آہ بھری کہ خواب آج بھی خواب ہی ہے۔!
“نہیں آیا علامہ صاحب۔۔ نہیں آیا۔۔۔۔ نہ ساقی۔۔ نہ جام۔۔ اور نہ ہی مقام!”