ڈپریشن،ایک خاموش قاتل

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو اب تک بے شمار افراد کی جان لے چکا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر عمر کے افراد کو اپنا شکار بنا رہی ہے اور اس کی صحیح وقت پر تشخیص نہ ہونا پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو روتا چھوڑ جاتی ہے۔

29 اکتوبر 2023 کے روز مولانا طارق جمیل کے بیٹے عاصم جمیل کی خودکشی کی خبر نے لوگوں کو غمگین کر دیا۔ انہوں نے 30 بور کی پستول سے اپنی جان لے لی۔ عاصم جمیل ملک کے نامور اسلامک ا سکالر مولانا طارق جمیل کے بڑے بیٹے تھے جو کہ کچھ عرصے سے شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا تھے۔ عاصم نے اپنی پسند کی ایک لڑکی سے شادی کی لیکن کچھ ہی عرصے میں دونوں کی طلاق ہو گئی جس کے بعد عاصم  آہستہ آہستہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوتے چلے گئےاور 29 اکتوبر کے دن جب وہ گھر میں اکیلے تھے تو انہوں نے ڈیوٹی پر تعینات سکیورٹی گارڈ کی بندوق لے کر خود کو گولی مار لی۔عاصم جمیل بچپن سے ہی ڈپریشن کے مریض تھے لیکن پچھلے چھ ماہ سے ان کی بیماری کی شدت کی وجہ سے ان کو بجلی کے جھٹکے دیے جا رہے تھے تاکہ ان کی اس  بیماری کو کنٹرول کیا جا سکے۔

اس سے قبل بھی دیکھا جائے تو ڈپریشن کا ایک اور کیس سامنے آیا جو کہ کافی حیران کن تھا کیونکہ یہ خودکشی ایک ماہر نفسیات کے بیٹے نے کی تھی جن کا نام عماد نقوی تھا اور یہ 24 سالہ نوجوان تھے۔ عماد نقوی عطیہ اور اضفر نقوی کی پہلی اولاد تھے جو کہ پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن کا شکار تھے۔ ان کی والدہ ماہر نفسیات کہتی ہیں کہ ایک طرح سے میں اپنے پیر پہ خود کلہاڑی مار رہی تھی کہ جب میرا بیٹا اس ذہنی کشمکش سے گزر رہا تھا تو میں خود اپنی زندگی میں مصروف تھی اور اپنے بیٹے کی بیماری کو نہ دیکھ سکی۔ اور میرا بیٹا ذہنی ڈپریشن سے اکیلا لڑتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

دورِ جدید میں ڈپریشن ایک بڑھتا ہوا مرض ہے جس کے علاج سے پہلے ہی انسان یا تو خود کو قتل کر لیتا ہے یا پھر پاگل پن کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے ۔ ڈپریشن نفسیاتی امراض کی ایک قسم ہے جو کہ  انسان کو رفتہ رفتہ زندہ ہی قبر میں پہنچا دیتا ہے ۔ کچھ لوگ اس مرض پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لیتے ہیں۔

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو آہستہ آہستہ انسان کو اپنے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے،اور خود کو ایک پنجرے میں قید پرندے کی طرح محسوس کرتا ہے جس سے نکلنا نا ممکن ہوتا ہے۔

اگر اپنے ارد گرد کے لوگوں پہ نظر دوڑائی  جائے تو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جو خوش مزاجی کا لبادہ اوڑھے تنہا ہی ڈپریشن سے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ اور آخروہ لوگ اس مرض سے لڑتے لڑتے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ۔ دنیا کا ایک تہائی حصہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے ۔ مردوں کی نسبت عورتوں میں ڈپریشن کی شرح زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 40 فیصد نوجوان افراد کو سب سے پہلے ڈپریشن 20 سال سے کم عمر میں شروع ہوتا ہے اور 20 سال کے بعد اس میں لگاتار اضافہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہوتے ہیں۔

عالمی سطح پر تقریباً 34 فیصد یونیورسٹی جانے والے طالبات ڈپریشن کا شکار ہو تے ہیں۔ اور اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ایک تازہ تحقیق کے مطابق ملک بھر میں نوجوان افراد یعنی 11 سے 18 سال کے درمیان کے بچے 17 فیصد ڈپریشن کا شکار ہو تے ہیں جبکہ 18 سے 20 سال کی عمر کے بچے 21 فیصد ڈپریشن کا شکار ہو تے ہیں ۔ اسکے علاوہ گریجویشن کرنے والے 22 سے 26 سال تک کے نوجوانوں کو 42 فیصد تک اس بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے  جبکہ اس سے زائد عمر کے افراد میں ڈپریشن کی شرح 20 فیصد ہے۔

ڈپریشن کی بہت سی اقسام ہیں ۔ جن میں سر فہرست

دل کا اداس رہنا ہے۔

یہ اداسی اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان کا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ کسی محفل اور سرگرمی میں انسان کی دلچسپی نہیں رہتی ۔ عام اداسی میں جب دل کے اداس ہونے پر انسان کو خوشی ملتی ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے لیکن ڈپریشن کے دوران انسان کو خوشی ملنے کے باوجود  خوشی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اس مرض کے دوران نیند بھی کافی حد تک متاثر ہوتی ہے یا تو مریض کی نیند بہت کم ہو جاتی ہے ۔ نیند کے دوران بار بار آنکھ کھل جاتی ہے ، رات گھنٹوں نیند کا انتظار کرنا پڑتا ہے ، یا پھر انسان مقررہ وقت سے پہلے ہی اٹھ جاتا ہے ۔ اس مرض میں نیند کی زیادتی  ہو جاتی ہے گھنٹوں سوئے رہنے کے باوجود انسان خود کو ترو تازہ محسوس نہیں کرپاتا ۔ تھوڑا سا کام کرنے کے بعد گھنٹوں تھکن سے بدن چور ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ اس حالت میں انسان کی بھوک بھی کافی حد تک متاثر ہوتی ہے یا بھوک کی زیادتی ہو جاتی ہے یا پھر بھوک مکمل طور پر مٹ جاتی ہے ۔ بھوک کم ہونے سے وزن میں کمی ہو جاتی ہے جس سے انسان لاغر دکھائی دیتا ہے اس کے برعکس بھوک کے بڑھ جانے سے وزن میں قدرے اضافہ ہو جاتا ہے ۔

ڈپریشن میں عموماً سائیکالوجیکل اور بائیولوجیکل دونوں عوامل موجود ہوتے ہیں۔

بائیولوجیکل میں ہمارے دماغ میں خاص قسم کے ہارمونز خارج ہوتے ہیں جو انسانی کارکردگی ، مزاج میں توازن اور خوشی کو محسوس کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ جونہی ان کی مقدار انسانی وجود میں کم ہو جاتی ہے تو انسان ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

سائیکالوجیکل میں زندگی میں آنے والے نا خوشگوار واقعات سر فہرست ہیں جیسا کہ  بے روزگاری ، نوکری کا نہ ملنا ، محبت میں ناکامی ، تعلیمی قابلیت میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ڈپریشن کا علاج ممکن ہے اگر پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈوں سے پرہیز کیا جائے۔ اگر ہو سکے تو نفسیاتی ماہرین سے رجوع کریں۔ ادویات کا مناسب استعمال کریں۔ اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنائیں اور ایسے لوگوں سے دور رہیں جو باتوں میں زہر گھولنے کے عادی ہوں۔