امیر بھکاریوں کا شہر کراچی

آج کی بے ہنگم دنیا میں مانگنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں مختلف چوراہوں اور سگنلز پر موجود پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ کراچی بھر میں شاید ہی کوئی چوراہا، سڑک یا سگنل ایسا موجود ہو جو ان گدا گروں سے پاک ہو۔ حد تو یہ ہے کہ کسی اوپن ائیر ریسٹورنٹ اور بازاروں میں جاتے ہی مانگنے والوں کا جھنڈ کا جھنڈ جمع ہو جاتا ہے جو پہلے پہل تو دعاؤں کی صورت میں پیسے مانگنے کی ابتدا کرتا ہے لیکن پیسے نہ دینے کی صورت میں بددعائیں دینے پر اتر اتا ہے۔ اگر آپ کو بدقسمتی سے کسی ایک پر بھی ترس آ گیا اور آپ نے اس کی مدد کر دی تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے ساتھیوں کو اشارہ کرتا ہے جس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی بھکاریوں کی لائن آپ کے سامنے موجود ہوتی ہے۔

روشنیوں کا شہر کراچی اب بھکاریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پورے پاکستان سے پیشہ ور بھکاری کراچی میں اپنے پورے خاندان سمیت منتقل ہو چکے ہیں جنہوں نے کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی میں 1 لاکھ 30 ہزار سے زائد مقامی بھکاری موجود ہیں اور رمضان سے قبل ہر سال 3 لاکھ بھکاری دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں کہ ان بھکاریوں کے پیچھے پورا مافیا موجود ہے جو کہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ مافیا مرد، عورتوں اور بالخصوص چھوٹے بچوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور ان کو گاڑیوں میں بھر کر مختلف چوراہوں اور سگنلز پر اتارتا ہے جس کے بعد یہ اپنی معذوری کا ڈھونگ رچا کر لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ بچے اے ٹی ایم مشین کی مانند ہیں جس میں ہم پیسے ڈالتے تو ہیں لیکن اس کے بعد ان کی پشت پناہی کرنے والی مافیا ان مشینوں سے پیسے نکال کر لے جاتی ہے۔ ان بھکاریوں کو ما فیا کی طرف سے کچھ خاص علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں جس میں کسی دوسرے بھکاری کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ جن علاقوں سے زیادہ بھیک حاصل کی جاتی ہے اس جگہ کے ریٹس بھی اتنے ہی زیادہ رکھے جاتے ہیں۔

آج کل کراچی شہر میں ایک نیا ٹرینڈ بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں یہ گداگر ماں بیٹی یا باپ بیٹی کی صورت میں غریبی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف شاہراہوں اور بالخصوص مسجدوں کے باہر چپ چاپ ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو کہ آتے جاتے لوگوں کو ایسی مسکینیت اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ دیکھنے والا ان پر ترس کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان بھکاریوں کی روزانہ کی آمدنی کسی بھی عام انسان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔

کچھ اعداد و شمارکے مطابق کراچی میں صرف دکانوں سے یہ پیشہ ور گداگر سالانہ 32 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد کماتے ہیں۔ ان بھکاریوں میں بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، گھروں اور سگنلز پر کھڑے ہونے والے گداگر شامل نہیں ہیں، صرف دکانوں سے ہی اتنی بڑی رقم کما لی جاتی ہے ۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق فقیر کےحلیوں میں موجود لوگ کراچی شہر میں ڈکیتیاں کرتے پائے گئے ہیں۔ رات کے وقت میں یہ پیشہ ور بھکاری نشے کی حالت میں مختلف چوراہوں اور پلوں کے نیچے موجود ہوتے ہیں جبکہ دن بھر بھیک مانگتے، عورتوں اور مردوں کے بٹوے غائب کرتے اور ڈکیتیوں کی واردات میں شامل نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ مافیا منشیات فروشی اور اغوا کے واقعات میں بھی کافی سرگرم ہے۔ ملک بھر کے مختلف شہروں سے اغوا کیے جانے والے بچوں کو معذور کر کے کراچی شہر میں موجود بازاروں ، سگنلز اور مزاروں پر ڈال دیا جاتا ہے جنکو کراچی کی عوام ترس کھا کر بڑی تعداد میں بھیک دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اگر دین اسلام کی روشنی میں اس حوالے سے بات کی جائے تو نبی محمد (ﷺ) نے پیشہ ورانہ بھیک مانگنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اسلام ایک عملیت پسندانہ مذہب ہے، حضرت محمد (ﷺ) نے ہمیں ہمیشہ محنت کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کا راستہ دکھایا۔ حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا “جو شخص زیادہ دولت جمع کرنے کے لئے لوگوں سے بھیک مانگتا ہے، وہ انگارے جمع کررہا ہے۔ تھوڑے انگارے جمع کرے یا زیادہ اب یہ اسکی اپنی مرضی ہے”(صحیح مسلم 1041)۔ ایک اور جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے ( یعنی عادی بھیک مانگنے والا) یہاں تک کہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اسکے چہرے پر زرا بھی گوشت نہ ہوگا” ( صحیح بخاری 1474)۔

شہریوں کو چاہیے کہ ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینے سے گریز کریں وہیں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف ان پیشہ ور بھکاریوں کو شہر کراچی سے باہر نکالیں بلکہ اس میں موجود مافیا کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کریں۔