کراچی کے علاقے نیو کراچی کے رہائشی 45 سالہ عدنان طارق اپنی خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے کہ اچانک تیز بخار اور سر درد میں مبتلا ہو گئے۔ وہ اسکو معمولی بخار سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے لیکن یہ بخار پر اسرار طریقے سے دھیرے دھیرے انکی جان لے گیا۔ 21 اکتوبر کو عدنان کی حالت بگڑنے پر جب انکو اسپتال میں داخل کرایا گیا تو ان میں ایک خطرناک وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ عدنان طارق کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر انھیں فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ آخر یہ کونسا وائرس تھا؟ کیا عدنان کی موت کے بعد یہ سلسلا رک گیا یا یہ اب بھی جاری ہے؟
اس خطرناک وائرس کو نیگلیریا وائرس کہا جاتا ہے جو ایک خاموش قاتل ہے۔ اس وائرس نے اب تک دنیا بھر میں ہزاروں افراد کی جان لے لی۔ محکمہ سندھ کے مطابق کراچی میں رواں برس نیگلیریا سے اب تک 11 اموات ہو چکی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق نیگلیریا صاف پانی میں افزائش پاتا ہے اور ناک کے ذریعے انسانی دماغ تک جاتا ہے اور پورے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے اس لیے اس کو دماغ کھانے والا امیبیا بھی کہتے ہیں۔ اس امیبیاکے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری ہمیشہ ہی مہلک ہوتی ہے۔ البتہ یہ جراثیم ٹھنڈے، صاف اور کلورین والے پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس بیماری کو پھیلانے والے جراثیم کا اصل نام نیگلیریا فاؤلیری ہے۔ اس کی علامتیں سات دن میں ظاہر ہوتی ہیں جو گردن توڑ بخار سے ملتی جلتی ہیں یعنی سر میں تیز درد ہونا، الٹیاں یا متلیاں آنا، گردن اکڑ جانا اور جسم میں جھٹکے لگنا اس وائرس کی واضح علامتیں ہیں۔
یہ وائرس عموماً سویمنگ پولز، تالاب سمیت ٹینکوں میں موجود ایسے پانی میں پیدا ہوتا ہے جس میں کلورین کی مقدار کم ہوتی ہے جبکہ شدید گرمی بھی نیگلیریا کی افزائش کا باعث بنتی ہے۔ دی لینسٹ انفیکشن ڈیزیزکی ایک رپورٹ کے مطابق نیگلیریا سے ممکنہ ہلاکتوں کی شرح 98 فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیگلیریا سے بچاؤ کے لیے پانی میں کلورین کا 50 فیصد ہونا ضروری ہے۔ گھروں میں موجود ٹینکوں کو سال میں کم سے کم دو بار صاف کیا جائے اور کلورین کی گولیوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پینے اور وضو کے لیے پانی کو 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابالنا نیگلیریا کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔
ماہرین طب کا یہ بھی کہنا ہے کہ سو ئمنگ پول میں تیراکی کے دوران احتیاطی طور پر ناک کو پانی سے اوپر رکھنا چاہئے۔ ہر سال پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت نیگلیریا یا فاؤلری کے کیسز کراچی سے ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں عباسی اسپتال کے سینئر ڈاکٹرکہتے ہیں کہ ایک تو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی کئی شہروں سے زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نل کا پانی نہیں ملتا اور وہ ٹینکر کا پانی خریدتے ہیں اور ٹینکر کے پانی کا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
کچھ عرصہ قبل کراچی کی 50 یونین کونسلوں سے پانی کے لیے گئے نمونوں میں سے 95 فیصد میں نیگلیریا مثبت آیا تھا۔ بعض ڈاکٹرز یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں ایسے کیسز کا رپورٹ ہونا لوگوں میں آگہی ہونا بھی ہے کیونکہ کراچی میں پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت ہسپتالوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور جدید ہسپتال بھی دیگر شہروں سے زیادہ ہیں جہاں دیگر امراض کی تشخیص کے علاوہ نیگلیریا کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں، اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ زیادہ کیسزکراچی میں ہی رپورٹ ہوتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ نیگلیریا کے کیس دیگر شہروں میں بھی ہوتے ہوں گے مگر ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث رپورٹ نہیں ہوتے ہوں گے کیونکہ اس جراثیم کے متاثر ہونے کے بعد چند دن تک سر درد، بخار یا غنودگی کے سبب کوئی مریض انتقال کر جاتا ہے تو گھر والے سمجھتے ہیں کہ کورونا تھا یا کوئی اور بیماری تھی۔
ممکن ہے اسے نیگلیریا ہو لیکن ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث دیگر شہروں سے کیس سامنے نہیں آتے۔ ماہرین کے مطابق یہ مرض ابھی تک اتنا عام نہیں ہوا۔ اور پچھلے سال پوری دنیا میں اس مرض کے صرف چار سو کیسز سامنے آئےہیں۔ لیکن بہر حال اس مرض سے بچاؤ کےلئےاحتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے واٹر پارکس میں نہانے سے گریز کریں اورپانی ہمیشہ ابال کر پیئیں۔