اوسطاً ایک پاکستانی اسٹوڈنٹ زندگی کے تقریباً 16 برس لگا کر گریجویٹ ہوتا ہے ۔ اس دوران وہ اپنا بچپن ،لڑکپن اور جوانی تعلیم کی نظر کرتا ہے ۔ بچپن میں ہوم ورک جان نہیں چھوڑتا ۔ لڑکپن میں کلاس ٹیسٹ جیسا خوف مسلط رہتا ہے اور جوانی یونیورسٹی کی اسائنمنٹ اور پریزنٹیشن دیتے دیتے گزر جاتی ہے ۔
گریجویشن کرنے کے بعد بھی ایک پاکستانی طالب علم اپنی ڈگری سے متعلقہ کوئی عملی کام سر انجام دینے سے تقریباً قاصر ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ طالب ایک ایپلیکیشن یا سی وی تک خود نہیں بنا سکتا ۔ اب اس تعلیمی ڈگری کے غذاب کو بیان کرنا کوئی سائنس نہیں ہے۔ پورے معاشرے پر اس کے اثرات عیاں ہیں ۔
ایک طالب علم اس ڈگری جیسے عذاب پر عمر کا ایک اہم اور توانائی سے بھرپور حصہ اور اپنے خاندان کے مالی وسائل خرچ کرتا ہے ۔ جس کے آؤٹ پٹ میں اس کو کاغذ کا ایک ٹکڑا دے دیا جاتا ہے ۔ اس کاغذی ٹکڑے کی بنیاد پر وہ طالب علم ملک کی ہی ہر چھوٹی بڑی نوکری کے اہل ہوجاتا ہے قابل نہیں ہوتا ۔ کیا 16 سال کے امتحانات اس کے لیے کافی نہیں ہوتے؟ کہ اس طالب علم کو کسی ایک عہدے کے لیے ہی قابل قرار دیا جائے ۔
ڈگری کا اصل عذاب ڈگری مکمل کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ اس کی اہم اشکال ایم کیٹ ، سی ایس ایس اور مختلف مقابلہ بازی کے امتحانات ہوتے ہیں ۔ ایک اوسط درجے کا طالب علم جو زندگی میں کوئی محنت طلب کام نہیں کر سکتا وہ 16 سالہ ڈگری کے بعد پھر صفر سے ان مقابلہ بازی والے امتحانات کی تیاری شروع کر دیتا ہے ۔ تقریباً 10 سے 12 سال تک امتحانات ، نتائج ، انٹرویو اور آخر میں جاکر کہیں ایک 16 یا 17 اسکیل کی نوکری میسر آتی ہے ۔ اس وقت تک طالب علم صاحب کی زندگی میں 35 سال کی اوسط عمر نکل چکی ہوتی ہے ۔ بہت سے بچوں کا ماموں بھی بننا کا اعزاز حاصل ہوچکا ہوتا ہے ۔
یہ غذاب تو وہ طالب علم برداشت کرتا ہے جو ہمت اور حوصلے کی مضبوط چٹان ہو ورنہ تو میٹرک یا اس سے قابل ہی مڈل سکول کے امتحان میں ایسی بریک لگتی ہے کہ گاڑی پھر آگے چلنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔ ہمارے معاشرے میں ڈگری صرف خاندان والوں کے لیے ہی عزت ہوتی ہے ۔ ایک طالب علم کے لیے وہ اس وقت تک عذاب مسلسل ہے ، جب تک کہ وہ کوئی با عزت نوکری حاصل نہ کر لے ۔
اس ڈگری والے عذاب کے دوران طالب علم پر صرف پریشر اور ذمہ داری ڈالی جاتی ہے ۔ گھر والے ہر وقت اول درجے لانے کی تلقین کرتے ہیں اور اساتذہ مسلسل اپنی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیکچر دیتے ہیں ۔ معذرت کے ساتھ اساتذہ میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو طلباء و طالبات کو ذہنی و نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ ہر کلاس میں تقریباً ایک ایسا استاد یا استانی ضرور ہوتا ہے جس سے طالب علم ذاتی حد تک نفرت کرتا ہے ۔ کیونکہ ایسے ٹیچرز اس طالب علم کو نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں ۔ 16 سال میں 16 ایسے ٹیچرز ضرور ملتے ہیں جو طالب علم کو نفسیاتی طور پر مریض بنا دیتے ہیں ۔
یہ ڈگری کا عذاب ایک طالب علم سے بہت کچھ چھین لیتا ہے ۔ بچہ بچپن میں ان نیلی پیلی کلر بک میں مگن رہتا ہے پھر اس کے بعد تمام عمر اوّل آنے کی دوڑ میں ۔ پھر وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے بہن ،بھائی ،رشتے دار ، دوست اور پھر اس شخص تک کو کھو بیٹھتا ہے جس سے جوانی کا عشق ہوتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کے پیچھے ڈگری کے عذاب ہی مسلط ہوتے ہیں۔
اس کالم پر پڑھا لکھا طبقہ تنقید کرسکتا ہے ۔ کیونکہ یہاں تنقید ہی آسان کام ہے ۔ لیکچر دینا آسان کام ہے لیکن اس کے لیے کوئی واضح پالیسی بنانا اور پھر اس پر عمل درآمد کروانا انتظامیہ کے بھی عذاب ہے ۔ ان ڈگریوں کو اللہ کا نام ہے نوجوانوں کے لیے عذاب نہ بنائیں ۔ دوران ڈگری کوئی ایک ایسا ہنر ضرور سیکھا دیں جس سے ایک طالب علم کی معاشی تسکین ہوسکے ۔ کمزور طلباء و طالبات کو الگ دفتر بولا کر ان سے باتیں کریں ، ان کے مسائل سمجھیں کہ وہ کن ذہنی اذیتوں اور الجھنوں کا شکار ہیں ۔
طالباء و طالبات سے دوستانہ رویہ اختیار رکھیں کہ اگر انہیں کوئی مسئلہ ہو تو وہ اپنے ٹیچر سے بات کرسکیں ۔ خدارا ان کو ذہنی و نفسیاتی مریض نہ بنائیں ۔ ان ڈگریوں کو اس نسل پر عذاب کی صورت مسلط نہ کریں ۔ طلباء و طالبات کے گھر والے بھی سمجھیں کہ ایک طالب علم کن کن مسائل سے دوچار ہے کیونکہ آج کل کے دور میں مینٹل ہیلتھ کے پرابلمز بہت زیادہ ہیں ۔ ان پر اتنا ہی پریشر ڈالیں جو ایک طالب علم کی برداشت میں ہو ۔ ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے قبل ان کی کیرئیر کاؤنسلنگ کروائیں ۔ خود حکیم الامت نہ بنیں ۔ اللہ تعالٰی ہر طالب علم کی حفاظت فرمائے، آمین ثم آمین۔