تعلقات عامہ سے مراد دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان تعلق ۔ تعلق مختلف قسم کے ہو تے ہیں۔ ایک تعلق انسان کا اللہ سے عبادت کی شکل میں ہے، ایک تعلق میاں بیوی کے درمیان ہے،ایک تعلق والدین اور بچوں کے درمیان ہےاور اسی طرح، بہن بھائی،رشتہ دار، دوست وغیرہ کے درمیان تعلق قائم ہوتارہتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ غور کرتے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ انسان ہر وقت تعلق میں ہوتا ہے۔قبیلے کے لحاظ سے آپ کا تعلق اپنے خاندان سے ہے، قوم کے لحاظ سے آپ کا تعلق اپنےقبیلے سے ہے، دنیا کے لحاظ سے آپ کا تعلق ایک قوم سے ہیں اور کائنات کے لحاظ سے آپ کا تعلق ایک نسل سے ہے جس کوہم انسان کہتے ہیں۔اگرچہ ہم نہیں جانتے یا ہم اس پرغور نہیں کرتے ۔
اگر تعلقات عامہ کو تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے توتعلقات عامہ سے مراد انسانوں کے درمیان کسی مقصد یا کسی شے کی وجہ سے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔
تاریخ میں اس کا آغاز 16ویں صدی(مڈل ایج دور) سے ہوتا ہے۔ اس وقت چرچ اور گیلڈس ( تاجروں اور گاریکروں کی تنظیم) کے درمیان تعلقات عامہ قائم ہوا اور امریکہ کے انقلاب میں یہ بہت اہمیت کا حامل بھی رہا کیونکہ اس کے ذریعے عوام کی رائے کا پتہ چلتا تھا اور اس کے مطابق منصوبے بنائے جاتے تھے، اسی طرح برطانیہ کے محب وطنوں نے جب اپنے ملک کے لیے جدوجہد کررہے تھے تو انہوں نے تعلقات عامہ کو قائم کیا،کیونکہ اس وقت تعلقات عامہ اہم معنیٰ رکھتاتھا۔تاریخ کے مطابق اس وقت کے لوگ بھی تعلقات عامہ کوسیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے خوب استعمال کرتے تھے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں صنعت اوربڑے پیمانے پر پیداوار کے خلاف جب کرپشن کی داستانے میگز ینوں میں آنے لگیں تو صنعت کاروں نے تعلقات عامہ کی ضرورت شدت سے محسوس کی اور اس کو قائم کرنے کے لیے کام شروع کیا گیا تھا۔ دو اشخاص لی ریل روڈ اور چارج پارکر دونوں امریکی شہری تھے۔ انہوں نے 1903ء میں دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ تعلقات عامہ کا دفتر کھولا۔امریکہ میں لی رولریڈ اینتھرا سائٹ کول آپریٹرز اور پنسلوانیا ( یہ دو صنعتی گروپ) کے پریس نمائندے بن گئے تھے۔ جب ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو لی رولریڈ نے تعلقات عامہ کے اصولوں کو پہلی مرتبہ مرتب کئے گئےاورعالمی جنگ اول میں اس وقت کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے تعلقات عامہ کی کمیٹی تشکیل دے تھی اور اس کا سربراہ لی رولریڈ کو مقرر کیا گیا تھا اوراس کمیٹی نے اس وقت کی کانگریس سے تعلقات عامہ کا ایک قانون پاس کروایا جس کے تحت تعلقات عامہ کو مزید طاقت ملی۔ اس کے تحت عوام میں ایک مہم چلائی گئی اور اس مہم کے تحت حکومت نے اپنے مقاصد حاصل کئے تھے۔
آہستہ آہستہ تعلقات عامہ ترقی کرتے کرتےحکومت اور پرائیویٹ اداروں کے لیے بہت اہم ہوگیا تھا۔تعلقات عامہ پر سب سے ہے۔crystallizing public opinion پہلےامریکی لکھاری ایڈور برنیس نے 1930ءمیں ایک کتاب لکھی جس کا نام اس کتاب میں تعلقات عامہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔حصہ اوّل میں عوامی تعلقات میں رائے عامہ کے ساتھ کام کرنا بھی شامل ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تعلقات عامہ کے ماہر ین اکثر عوامی رائے کو مثبت انداز میں لیتے ہیں اور اگریہی رائے کسی کمپنی یا تنظیم کے بارے میں ہو تو تعلقات عامہ کے ماہرین اس رائے کو بھی مثبت انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتےہیں اور اپنے کسٹمرکو قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اس حصے میں اکثر کمپنیاں ،تنظیم اور کارخانے آتےہیں۔ کمپنیاں اور فیکٹریاں تعلقات عامہ کے ماہرین کے ذریعے اپنا امیچ کو بحال کرنے کے لیے عوام میں ایک زبردست مہم چلاتی ہیں اور اس مہم سے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں۔
حصہ دوئم میں تعلقات عامہ کا تعلق مواصلات سے ہے ۔ اس حصے میں ماہرین کے مطابق اکثر لوگ کمپنی کو ناپتے ہیں کہ کیا کمپنی ان کے رائے کے مطابق کام کررہی ہے یا نہیں۔تعلقات عامہ کے ماہرین کمپنی کوآگاہ کرتے ہیں کہ عوامی رائے سے چلنے کے لیے یہ یہ کمپنی کو کرنا ہوگی۔ اس میں ابلاغ شامل ہے اور ابلاغ کے بہت سے اقسام ہیں مگر یہاں دو کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
تعلقات عامہ کے ماہرین کسی بھی تنظیم میں دو قسم کے کام سر انجام دیتے ہیں۔ ایک تنظیم کے اندر عوامی رائے کے مطابق منیجرز،ورکرز،اور ورکررزیونین سے ابلاغ کرتے ہیں اوردوسرا باہر سے آنے والے لوگ جن میں کنزومرز، ڈیلرز، سپلائزر، حکومت، خاص کیمونٹی کو لوگ اور میڈیا شامل ہے ۔
مختصر یہ کہ تعلقات عامہ کا محکمہ ہر ادارے میں موجود ہوتا ہے۔ چاہے وہ پرائیویٹ اداراہ ہو یا سرکاری۔ تعلقات عامہ اس کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں ہوتے ہیں اور تعلق کبھی مضبوط اور کبھی کمزور بھی ہوتا ہے۔ جن لوگوں سے آپ کا واستہ ہے یا آپ اپنی روزمرہ زند گی میں ان کے بغیر رہ نہیں سکتے، توپھر ان کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنے چاہئے اور اس کا احترام کرنا چایئے۔