بطور مسلمان ہمارا قبلہ اول بیت المقدس ہے۔ جہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سبحانہ وتعالی سے جو تین دعائیں مانگی تھیں ان میں ایک یہ دعا بھی تھی کہ جو مسجد اقصیٰ میں صرف نماز کی نیت سے آئے اسے گناہوں سے ایسے پاک کردے جیسے وہ اپنی پیدائش کے دن تھا۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے کہ ہم نے سترہ ماہ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ،ہمارا بھی دل کرتا اس مسجد میں جاکر نماز پڑھیں جہاں پیارے نبی ﷺ کی امامت میں انبیاء علیہ السلام نے نماز پڑھی، میں نے ایک صاحب سے پوچھا ہم بیت المقدس جا سکتے بولے نہیں کیونکہ اسرائیل نے چال بازیوں سے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن الحمدللہ پاکستانی پاسپورٹ پر ہم ڈائریکٹ اسرائیل نہیں جا سکتے۔ شکر ہے پاکستان کے اندر اتنی حمیت باقی ہے کہ اسرائیل کا ویزہ نہیں دیتے۔ الحمدللہ پاکستانی عوام فلسطینیوں کے لیے محبت، دکھ درد ایثار وقربانی کا جذبہ رکھتی ہے اس کا اندازہ آپ نے پندرہ اکتوبر کے کراچی میں مارچ سے لگا لیا ہوگا ہم ہر محاذ پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم دکھتا ہے۔
اللہ کرے تمام مسلم ممالک ایک ہو جائیں اپنے حرم کی پاسبانی کے لیے، سعودی عرب تیل کی بندیش اور قطر گیس کی ترسیل روک کر اسرائیل کو اس ظلم ستم سے روک سکتے ہیں۔ کیا ان کی آنکھیں نہیں ہیں کہ وہ دیکھتے کہ امریکہ کس طرح اسرائیل کی مدد کو دوڑ آیا اپنے دو جنگی بحری جہاز مع دوہزار فوجیوں کے ہمراہ بھیج دیے اور اپنے سیکرٹری خارجہ کو کہہ دیا کہ جنگ بندی کی بات نہ کی جائے گی نہ سنی جائے یہ تو چاہتا ہی ہے کہ دنیا میں جنگیں ہوتی رہیں اور اس کا اسلحہ بکتا رہے، ہم پر بھی یہ فرض بنتا ہے ہم اگر جہاد میں نہیں شریک ہوسکتے تو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اس کی معیشت کو کمزور کریں کیونکہ اس کو مضبوط پچھتر کروڑ مسلمانوں نے ہی بنایا ہے۔
اپنے مسلمان بچوں کو سمجھانا پڑے گا کہ دشمن ہمارا خون بہا رہا ہے معصوم بچوں کی جان لے کر اور ہم اس کی بنائی ہوئی چیزیں خرید کر اس کی معیشت مضبوط کر رہے ہیں، بے حس مسلم حکمرانوں جس طرح شامی بچی نے مرتے وقت کہاتھا ہمیں؟ کہ اللہ سے شکایت کروں گی اسی طرح یہ معصوم غزہ کے بچے لاکھوں کی تعداد میں باری تعالیٰ کے آگے روز محشر شکایتوں کے ڈھیر لگا دیں اور تم کو کہیں جائے پناہ نہ ملے اللہ نے سورہ نساء میں فرمایا ” آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے” قرآن عربی زبان میں ہے کیا عرب حکمرانوں نے ان آیات کا مفہوم نہیں سمجھا ہوگا، اگر وہ اللہ کو بھلا دیے گئے تو اللہ بھی ان کو روز محشر بھلا دے گا ،دہن اور مادہ پرستی نے ان کو کھوکھلا کر دیا ہے- خدارا شیطان کے ساتھیوں سے لڑے، طاغوتی سربراہوں سے نہ ڈریں۔
یا الٰہی ہمیں لشکر مہدی علیہ السلام میں رکھنا اگر ہم نہ ہوں تو ہماری نسلوں کو اس میں شامل کرنا، بیت المقدس میں نماز نہ پڑھ سکیں تو نسلیں ہماری عیسی علیہ السلام کی امامت میں نماز پڑھیں، ان شاءاللہ العزیز اسلام تو نافذ ہوگا پوری دنیا میں خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار ہو،،،،،کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس دنیا میں اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔