آتا ہے یاد مجھ کو اسکول کا زمانہ
وہ دوستوں کی صحبت وہ قہقہے لگانا
رضوان عمیر وقاص شایان کے ساتھ مل کر
وہ تالیاں بجانا بندر کو منہ چڑانا
اتوار کا دن ہو اور میں ایوب پارک میں نہ ہوں ایسا تو ہو نہیں سکتا، یہاں کا ماحول مجھے بہت پسند ہے۔ حسب روایت اس دفعہ بھی بچوں کو لے کے ہم ایوب پارک پہنچے۔ وہاں پرایک اسکول کے بچے تفریح دورے پرآئے ہوئے تھے۔ جس میں ہر عمر کے بچے تھے، چھوٹی بیٹی عائشہ سے کہا کہ جا کے پوچھ کے آئے کہ کس اسکول سے آئے ہیں ۔ پتہ چلا ماڈرن پبلک اسکول گجرخان آئے ہیں۔ بہت خوشی ہوئی بچوں کے کھل کھلاتے چہرے دیکھ کر. میرا تعلق بھی تعلیمی شعبے سے ہے اور جیسا کہ اکثر میں یہ بات برملا کہتا ہوں کہ حکومتی نالائقی کی بنا پر تعلیمی شعبے کو غیر پڑھے لکھے امرا نے یرغمال بنا لیا ہے ۔ اب جس کے پاس پیسہ ہے وہ ایک اسکول کھول لیتا ہے اور بچوں کے مستقبل سے کھیلتا ہے۔ صنعتکاروں نے اپنی فیکٹریاں بند کر کے اسکول کھول لیے ہیں منافع ہی منافع ہے۔
آپ ذہن پہ زور ڈال کے دیکھیں تو آپ کو اسکول کے زیادہ تر دن جو دن آپ کی یادداشت میں ہوں گے وہ کوئی کھیل کا دن ہوگا یا کوئی اسکول کی پارٹی یا خصوصا کوئی تفریح یا مطالعاتی دورہ ہوگا جس کا ایک ایک لمحہ آپ کے ذہن نشین ہوگا کہ آغاز کیسے ہوا، بس میں کیسے بیٹھے، کس کی طبیعت خراب ہوئی، کس سے بات ہوئی، کس کے پیسے گم ہوگئے، کس کا لنچ باکس نہیں ملا، واپسی پہ کون گم ہو گیا، کون سے دوست آپس میں ناراض ہو گئے یہ سب باتیں ہمیں ذہن نشین رہتی ہیں۔ دو سال پہلے بطور پرنسپل اسکول کے مطالعاتی دورے پر ٹیکسلا عجائب گھر جانے کا اتفاق ہوا آدھے گھنٹہ میں بچے وہاں بور ہوگے۔ موقع پر فیصلہ کیا کہ خان پور ڈیم لے جاتے ہیں آج تک بچے وہ دن یاد کرتے ہیں کہ زندگی کا یادگار دن تھا کیونکہ وہ جانا بھی وہاں ہی چاہتے تھے جب ان کی خواہش اچانک پوری ہوئی اس کے بعد اتنے نظم وضبط کا مظاہرہ کیا کہ کیا کہنے۔ ماہر تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تفریحی دورے تربیت کا اہم حصہ ہیں انسان جب خوش ہوتو سیکھنے کے بہت زیادہ موڈ میں ہوتا ہے۔ نظم و ضبط سکھانا ہو، مل بیٹھ کے گروپ میں کام کرنا سکھانا ہو، شیئرنگ کرنے کی عادت ڈالنی ہو ذمہ داری سونپا ہو۔ بہت آسان ہوتا ہے اپنی بات طلبہ تک پہنچانا۔
سرکاری اداروں کی حالت تو آپ کے سامنے ہی ہے اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ان کو پرائیویٹائز کرنے تک کی نوبت آ چکی ہے، استادوں کی پینشن بھی ختم کر دی۔ کسی اور سرکاری ادارے میں دینے والی مراعات کو ختم نہیں کیا بس اساتذہ کے در پہ ہے۔ نگراں وزیراعلیٰ صاحب نجی تعلیمی ادارے تو ویسے بھی ڈبہ نما ہوتے ہیں اکثر میں ان کو ٹفن نما اسکول کہا کرتا ہوں ۔ پانچ پانچ آٹھ مرلے پر بنے اسکول بچوں کے لیے کیا تفریحی فراہم کریں گے۔ سال میں ایک مرتبہ ٹرپ لے کر جانا ہوتا ہے وہ بھی حاجی چوک سے ایوب پارک۔ اور سونے پہ سہاگہ وہ بھی صرف اپنی کمائی کہ چکر میں کوبرا سانپ ڈسنا چھوڑ سکتا ہے نجی اسکول والے اپنا فائدہ نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے علاوہ اسکول مالکان اپنی ذمہ داری سے جان چھڑاتے ہیں اسی طرح پرنسپل حضرات، اساتذہ میں سے کوئی بھی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس سے ان کا بچوں سے ایسا تعلق نہیں بن پاتا کہ وہ بچوں کے دل تک پہنچ پائیں۔
ہمارے روحانی استاد محترم اشفاق احمد صاحب کہتے تھے کہ دل کے دروازے کی کنڈی اندر کی طرف ہوتی ہے اسے باہر سے نہیں کھولا جا سکتا ۔ اسی لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کے دلوں تک پہنچنے کے لیے چھوٹی چھوٹی اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کریں، کلاس پارٹیز کا بندوبست کیا جائے، بچوں کے لیے تفریح فراہم کی جائے، انڈور گیمز کا بندوبست کیا جائے تاکہ بچے ان کے ساتھ مانوس ہو سکیں ان کو یہ نہ لگے کہ یہ کوئی ہٹلر ان کے اوپر نافذ ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ کھیلیں بھی۔ کرکٹ میچز کا انعقاد کروائیں تاکہ بچے دوبارہ سے موبائل فونز سے نکل کھیل کے میدانوں میں آئیں صرف کرونا ہی نہیں ذمہ دار بچوں کو موبائلز فونز تک محدود کرنے میں اساتذہ والدین اور اسکول مالکان کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ اسی طرح اگر ہم ان کو مصروف رکھیں چھٹی کے دنوں میں ان کو تفریح کے طور پر لے کے جائیں۔ اساتذہ انفرادی طور پر کوشش کریں اور اسکول مالکان بھی ہر تین چار مہینے کے بعد ایک دورے کا بندوبست کریں تو بچے بھی ان سے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں گے بہتر نتائج حاصل کر سکیں گے ۔ اچھے شہری بن سکیں گے جو بھی ہم ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں وہ ہم سے بآسانی سیکھ سکیں گے۔ تھوڑا نہیں مکمل غور کیجئے گا۔