غیرتِ خُفتہ

بس،،،،،

اب تمہیں زباں کھولنی ہو گی۔

میرے منہ پہ ہاتھ نہیں رکھو مجھے کہنے دو ۔

اس سے پہلے ایک مرتبہ صابرہ اور شتیلہ کا تذکرہ کرنا چاہا تم نے میرا منہ بند کر دیا۔۔

اور۔

آج۔ ک۔ کیا کہا؟ گریبان چھوڑ دوں تمھارا ؟

کیوں ؟ آخر کیوں؟

اب یا تو تم زبان کھولو گے یا میری گرفت مزید سخت ہو تی جائے گی،

کیا تمہیں دل میں بیت المقدس کے لئیے محبت نہیں محسوس ہوتی؟ کہ جہاں سارے انبیائے کرام نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی تھی۔

تمہیں اس مقدس مقام، قبہ الصخرہ، سے بھی کچھ عقیدت محسوس نہیں ہوتی کیا ؟ کہ جہاں خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئیے براق کھڑا تھا شب معراج میں۔

تم نے کہا فلسطین عربوں کا مسلہ ہے بس، یہ کہا اور زباں سی لی تم نے۔

کہنے کو تو مسلمان ہو

شرم تم کو مگر نہیں آتی

جانتے نہیں کیا؟

تمام مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے،

ہاں یاد ہے نا یہ حدیث۔

تو۔

اب بتاؤ ذرا کہ جب صابرہ وشتیلہ کیمپوں پہ عیسائی دہشت گردوں کی ننگی جارحیت اسرائیلی وزیر اعظم، ایریل شیرون کی نگرانی میں کی گئ، نہتے فلسطینی مہاجر مرد عورتیں جوان بوڑھے خون میں نہلا دئیے گئے معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑادئیے گئے تھے۔

یہ قصہ سنا کر تم سے محض یہ تقاضا کیا تھا میں نے کہ ایریل واشنگ پاوڈر، kit kat ،pepsi اورKFC کا بائیکاٹ کردو۔ تم نے تب میرا مذاق اڑایا تھا۔

تو آج میں کہتا ہوں کہ اٹھو اور لبیک یا اقصیٰ کا نعرہ لگادو۔

کیا کہا؟، میں بے بس ہوں،

یہ کہہ رہے ہو نا ؟

میرے بھائی ! ایسا نہیں ہے۔

بتاؤ ذرا کہ،،

اپنی تاریخ یاد رکھنے میں کوئی کیونکر بے بس ہوسکتاہے؟

تم ایک معلم بھی ہو تو کیا تم نے اپنے شاگردوں کو صلاح الدین ایوبی جیسے ہیروز کے بارے آگاہی دی؟

تم نے یہودی مصنوعات کابائیکاٹ کیا اور اس سلسلے میں کیمپین چلائی؟

تم نے صیہونی تنظیم بارے مطالعہ وتحقیق کی ؟

تم نے ان اسباب پہ غوروحوض کیا کہ جن کے باعث امت کمزور تر ہوتی گئی؟

تم نے حماس کے بارے معلومات اکٹھی کی؟

بیٹھواور ذرا دھیان سے میری بات سنو میرے بھائی۔

ہم لوگ نبیﷺ کی شان میں بس راگ الاپتے رہ جاتے ہیں اور ہمارے دشمن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے اصول اخذ کر کے کامیابی پا جاتے ہیں۔

سنو تاریخ کے ایک باب سے ایک واقعہ۔

اسرائیل کی واحد خاتون وزیراعظم گولڈا مئیر ( 1969 تا 1974 ) کہتی ہے کہ 1973 میں جب عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے سائے گہرے ہوچکے تھے۔ ایک دن امریکی اسلحہ کمپنی کا دفاعی کنٹریکٹر اس سے ملنے آیا سودے کی شرائط زیر بحث آئیں۔ بالآخر گولڈا میئر نے کہا، ہمیں سودا منظور ہے،

اگلے دن یہ فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھا کابینہ نے ملک کی کمزور اقتصادی حالت کے پیش نظر اس سودے کی سخت مخالفت کی،

گولڈا میئر نے کہا، جب ہم فاتح قرار پائیں گے تو تاریخ یہ نہیں دیکھے گی ہم نے کتنے فاقے کیئے کتنی بار دن میں کھانا کھایا،

فاتح بس فاتح ہوتاہے۔ کابینہ نے منظوری دے دی۔ اور پھر اسی اسلحے سے اسرائیل نے عربوں کوشکست دی۔

بعد میں واشنگٹن پوسٹ نے گولڈامیئر کا انٹرویو لیتے ہوے پوچھاکہ، یہ جو دلیل آپ نے دی تھی وہ اچانک اس وقت ذہن میں آئی یا پہلے سے دماغ میں تھی؟

گولڈامیئر نے جواب دیا، میں نے بچپن میں مسلمانوں کے نبیﷺ کی سوانح حیات پڑھی تھی۔ میں نے پڑھا تھا کہ جب نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کاوصال ہوا تو ان کے گھر میں چراغ جلانے کے لئیے تیل تک نہیں تھامگر حجرے میں 9 تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں سوچتی ہوں آج کتنے لوگ ہیں جنہیں اس وقت(دور نبویﷺ) کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے علم ہے لیکن یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ ان فاقہ کشوں نے آدھی دنیا فتح کرلی

بس میں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم اسلحہ ضرور خریدیں گے چاہے ہمیں مسلمانوں کی طرح بھوکا رہنا پڑے اور پکے مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی گزارنی پڑے۔

بولو تمہارا یقین ہے اس حقیقت پر کہ دنیا میں قوت کے ساتھ جینے کاحق اسی کو ہے جو پیٹ کو نہیں اپنی غیرت کے تحفظ کو مقدم جانے۔؟

تو۔

اٹھو۔

میرے بھائی ! اب ندامت سے گردن نہیں ڈال دو، کچھ کرنے کاعزم باندھو۔

اٹھو کچھ کام میں کرتا ہوں کچھ تم کرو۔

ہاں ہاں یہ ٹھیک ہے۔

اسرائیل کی غزہ پر فاسفورس بموں سے بارش کے خلاف مظاہرے کے لیئے بینرز تم تیار کرو اور وزیر خارجہ اور انسانی حقوق کی وزارت اور او آئی سی وغیرہ کو ای میل میں سینڈ کرتا ہوں۔

یار مراکش تا انڈونیشیا مسلم قیادت کو غیرت دلانی ہوگی، شائد ہمارا کوئی لفظ انکی غیرت خفتہ کو بیدار کردے۔