کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ کو قتل کر دیا گیا جو کہ بھارتی نژاد تھے اور بھارتی پنجاب میں جاری خالصتان تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ غیر جانبدارانہ تحقیقات کے نتیجے میں بھارتی سفیر کو قتل میں ملوث پایا گیا جس پر کینیڈا نے بھارت سے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ اس کے ذمہ داران کو سزا دے۔ بھارتی حکومت نے جو اقلیتوں کے حقوق کے استحصال میں براہ راست ملوث ہے روایتی ہٹ دھرمی دکھائی جس پر کینیڈا نے نہ صرف بھارتی سفیر کواپنے ملک سے نکال دیا بلکہ بھارت کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے ختم کر دیے اور بھارتی باشندوں کو ویزے دینے پر بھی پابندی لگا دی۔ اس سے پہلے کینیڈا کے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔
بھارت کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کینیڈا میں آباد ہے جس میں سکھ آبادی کی تعداد تقریبا آٹھ لاکھ ہے اس بنا پر کینیڈا کو دوسرا پنجاب بھی کہا جاتا ہے کینیڈا اور انڈیا کے مابین بڑے پیمانے پر تجارت کی جاتی ہے اور ہر سال بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد مختلف ویزوں پر کینیڈا جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کئی تجارتی معاہدے بھی کیے گئے تھےلیکن اپنے شہری کی حفاظت اور اس کی نقصان پر کینیڈا نے ان تمام تعلقات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے نہ صرف اپنے سفارتی تعلقات ختم کیے بلکہ اپنے حلیف ممالک کو بھی ہم خیال بنایا چنانچہ امریکہ نے بھارت کے رویے کی سخت مذمت کی اور اس پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرائے اور مجرموں کو سزا دے۔
اپنے شہری کی ہلاکت پر کینیڈا کا یہ رویہ ایک آزاد اور ترقی یافتہ ملک ہونے کی عکاسی کرتا ہے جو اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے ،جہاں شہریوں کو ان کی جان مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
کسی ملک کی حکومت اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ اپنے باشندوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ بنیادی سہولیات میں سستا اور فوری فوری انصاف، تعلیم اور علاج کی سہولتیں روٹی، کپڑا ،مکان جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہیں اس کے علاوہ عوام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ امریکہ کی مثال لیں ایران میں پانچ امریکی شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا امریکہ نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے شہریوں کو اس کے حوالے کر دے مگر ایران نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے بالآخر قطر کی حکومت نے ثالث کا کردار ادا کیا دونوں ممالک میں معاملہ اس شرط پر طے پایا کہ امریکہ جو ایران کی چھ بلین ڈالر کی تیل کی پیمنٹ جو ایک عرصے سے وہ فریز کیے ہوئے ہے واپس کرے گا تو ایران بدلے میں اس کے شہری واپس کرے گا۔ امریکہ نے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے چھ بلین ڈالر واپس کیے اور ایران کی قید سے اپنے شہری رہا کرالئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ترقی یافتہ اور فلاحی مملکت کس طرح اپنے شہریوں کی حفاظت کرتی ہے اور ان کو جان و مال کا تحفظ دیتی ہے اس کا کام اپنی شہریوں کی حفاظت کرنا اور ان کی ان کو جان و مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنا ہے کوئی ریاست اگر ایسا نہیں کرتی تو اس کے وجود کا جواز باقی نہیں رہتا۔
وطن عزیز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس معاملے میں سخت مایوسی ہوتی ہے ہمارے ہاں شہریوں کی جان مال عزت و آبرو کا تحفظ ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مثال لے لیں جو پاکستان میں پیدا ہوئیں یہیں پلی بڑھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلی گئیں وہاں پر اپنی قابلیت اور ذہانت سے ملک کا نام روشن کیا پاکستان کی اس مایا ناز نیورو سائنسدان کو مارچ 2003 میں کراچی سے اغوا کر لیا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ قوم کی اس بیٹی کو اپنے ہی ملک کے حکمرانوں نے امریکہ کے ہاتھوں چند ڈالرز کے عوض فروخت کر دیا تھا۔
امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مقدمہ چلایا گیا یکطرفہ کاروائی میں انہیں 86 سال عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ امریکی محکمہ انصاف نے ان پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزامات عائد کیے اور انہیں القاعدہ کا کارکن اور سہولت کار قرار دیا اس یکطرفہ کاروائی میں ان کا کوئی وکیل اور کوئی حمایتی موجود نہ تھا یہاں تک کہ حکومت پاکستان کی طرف سے بھی ان کی کوئی مدد نہ کی گئی نہ ہی اس وقت کے حکمرانوں نے کوئی احتجاج کیا نہ کوئی بائیکاٹ عمل میں آیا عوام تک یہ معاملہ پہنچا تو ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ، احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔
آج بھی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیل خانے میں نہایت کسمپرسی کے عالم میں امریکی مظالم سہنے پر مجبور ہے۔
عافیہ صدیقی کی امریکہ میں سزا کے بعد اسی سال قید کی سزا حکومت پاکستان کی عزت اور غیرت پر وہ سنگین داغ ہیں جسے دھونے کی آج تک کسی حکمران نے کوشش نہیں کی کیونکہ اب تک جتنے بھی حکمران آئے وہ حکمران نہیں بلکہ بزنس مین تھے ایسے بزنس مین جو کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے انہوں نے قوم کی بیٹی کو بیچ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، عوام کو بے شعور رکھنے کے لیے روٹی کپڑے اور مکان کی فکر میں ڈالے رکھا، انہیں جہالت میں مبتلا کیے رکھا تاکہ وہ عزت اور غیرت کو بھول کر اپنی ضروریات کو پوری کرنے میں لگے رہیں۔
یقینا مفاد پرست عناصر نے ملکی مفاد کو نظر انداز کیا مگر ہمارے عوام نے بھی اپنا فرض ادا نہ کیاوہ انہی بدعنوان حکمرانوں کو دوبارہ منتخب کرتے رہے ان کا یہ قصور ناقابل معافی ہے کہ انہوں نے بار بار ایسے ہی بے غیرت رہنماؤں کو منتخب کیا جو قوم کی عزت بیچ کر اپنی جائیدادیں بناتے ہیں اور اپنی بینک بیلنس بڑھاتے ہیں۔اس کی سزا مہنگائی بدامنی اور لاقانونیت کی صورت میں مل رہی ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور حکمران ان کے ایجنٹس بن کر ہمارے سروں پر مسلط ہیں۔ اس مشکل سے نجات اسی صورت ممکن ہے کہ کے ملک کے عوام اپنی حالت بدلنے کے لیے ایسے رہنماؤں کو منتخب کریں جو ہماری ماؤں بہنوں کی حفاظت کر سکیں ان کا سودا کر کے اپنی جائیدادیں نہ بنائیں اور بیرونی ایجنٹ اور غدار نہ ہوں ،اپنے شہریوں کا تحفظ کرنا جانتے ہوں ان کی ضروریات کو پورا کرنے والے ہوں اور انہیں جان ،مال ،عزت اور آبرو کا تحفظ دے سکیں ۔ اگر آج ہم نے ان بدعنوان حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کی تو پھر ہم کتنے ہی نعرے لگائیں خواہ کتنے ہی جلوس نکالیں کتنی بھی دعائیں کریں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اللہ تعالی بھی کسی قوم کی حالت اسی وقت بدلتا ہے جب وہ خود اپنی حالت کو بدلنے کے لیے کوشش کرتی ہے،،،،،
بقول شاعر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کی