تین اکتوبر کو ہم دونوں میاں بیوی کی دبئی کی فلائٹ تھی؛ یہ میرا دبئی کا پہلا سفر تھا؛ تقریباً دو گھنٹے کا سفر خیر و عافیت سے گزر گیا؛، ابھی. جہاز نے لینڈ کیا ہی تھا کہ فرحت (بیٹے) کا فون آیا کہ میں ائیر پورٹ پر پہنچ گیا ہوں، دبئی کا شاندار ائیر پورٹ وسیع رقبےپر.جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیاہے میرا عموما ہر سال قطر انا جانا رہا ہے قطر کے ائیر پورٹ کا تو دنیا کے چند خوبصورت ہوائی اڈوں. میں شمار کیا جاتا ہے. لیکن دبئی ایئر پورٹ بھی جدید سہولیات کی وجہ سے مشہور ہے۔
وہیل چئیر کی وجہ سے ہم دونوں میاں بیوی کو کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا کافی شاپ پر فرحت ہمارا منتظر تھا بیٹے. کو دیکھ کر رہی سہی تھکن بھی دور ہوچکی تھی؛ فرحت کی رہائش ائیر پورٹ سے مشکل ہے دس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے؛ خوبصورت صاف ستھری سڑکیں منظم طریقے سے ٹریفک کا رواں دواں سلسلہ قابل تعریف ہے؛میرا دیس مجھے بہت عزیز ہے شاید اسی لئے بیرون ملک جاکر وطن عزیز کی ہر خامی پر دل افسردہ ہوجاتا ہے میرے شوہر کا آج سے تیس پینتیس سال پہلے دبئی آنے کا اتفاق ہوا تھا وہ اس وقت. کا موازنہ آج کے دبئی کے ساتھ کر رہے تھے کہ زمین و آسمان کا فرق ہے، صحرا. اور دیہاتی طرز تعمیر پر مشتمل دبئی نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے منازل طے کیے ہیں۔
ایک چیز کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہمارے وطن عزیز میں ذاتی مفادات کو فوقیت حاصل ہے کراچی ائرپورٹ پر وہیل چئیر چلانے والے دونوں افراد نے اپنی خرچی، کا مطالبہ کیا جبکہ دبئی میں بہترین سروس دینے کے باوجود جب دونوں مددگاروں کو میرے بیٹے نے پیسے دینے چاہے تو انہوں نے انکار کر دیا، ہاں پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے پر چالیس درھم ڈیوٹی دینی پڑی یہ یہاں کے اصولوں میں سے ایک ہے ایسے اصولوں کی وجہ سے معیشت مضبوط ہوتی جارہی ہے پھر اس مضبوط معیشت کی بدولت عوام کو سہولیات بہم پہنچائی جارہیں ہیں اسی طرح بیٹے نے بتایا کہ سیرو سیاحت کے محکمے کی فراہم کردہ سہولیات اور سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے ہر موسم میں سیاحوں کا رش رہتا ہے یعنی ہر طریقے سے ملک کی معیشت کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔
میرا وطن عزیز جو قدرتی حسین مناظر اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہ کیوں پیچھے ہے اور مسلسل پیچھے کی طرف جارہا ہے، کیوں ؟ میں اسوقت ٹیرس میں بیٹھ کر یہ بلاگ لکھ رہی ہوں؛ یہاں سے دور دور تک پھیلی کشادہ صاف ستھری سڑکیں اور خوبصورت گھر اور جدید عمارات نظر آرہیں ہیں اس علاقے میں ہر مذہب، ہررنگ و نسل اور ہر ملک کے باشندے رہائش پذیر ہیں لیکن انکے گھروں کے باہر ایک کاغذ کا ٹکڑا تک نظر نہی آرہا ھے صبح آفس کے لئے گھر سے نکلنے والے ہر شخص کے ہاتھ میں کچرے کا شاپر ہوتاہے جو وہ بڑے گیٹ پر موجود بڑے کنٹنئر میں ڈال دیتا ہے روڈ پر ڈرائیور اپنی گاڑی کو اسوقت تک آگے نہیں بڑھاتا جب تک سائڈ سے آنے والی گاڑی نکل نہ جائے، اسی طرح پیدل چلنے والوں کے لیے ڈرائیور انتظار کرتے ہیں کہ یہ سب گزر جائیں تو ہم اپنی گاڑی آگے بڑھائیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان قانون کی پاسداری کرنے والوں میں پاکستانی سر فہرست ہیں،جو ملک عزیز میں کسی قانون کی پرواہ نہیں کرتے اس میں چھوٹے سے لے کر بڑے سب شامل ہیں؛ یہ صرف دو دن کا تجزیہ ہے، مجھے یہاں آئے ہوئے صرف دو دن ہوئے ہیں۔ ہاں کچھ ماحول یہاں کا ایڈوانس ہے جس کی جھلکیاں سامنے آتی جارہیں ہیں جس پر ان شاء اللہ ضرور کچھ لکھنے کی کوشش کروں گی؛ فی الحال یہ دو دن کی داستان حاضر ہے۔