دعویٰ محبت کرنے والوں میں بھی محبت تلاش کرنی پڑے تو شک کی گنجائش تو نکلتی ہے۔ لیکن فی زمانہ حال صورتحال ایسی ہی ہے۔ آج اپنے محبوب رسول اللہ سے دعوی ٰکرنے والوں میں محبت تلاش کرنی پڑتی ہے۔ گمشدہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر تلاش کرنے چلیں تو صرف ظاہری وضع و قطع میں نظر آئے گی۔
سلف صالحین کا اجمالی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے حُب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی زندگیوں کو غیر اہم کیا۔
حدیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ،،،،،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی آللہ تعالی عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا،،، ” یا رسول اللہ مجھے آپ میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! “نہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں تمہیں خود تمہاری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں” یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا “واللہ اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر !اب تم مومن ہو” (صحیح بخاری)
مذکورہ بالا حدیث کی جامعیت بتاتی ہے کہ اس میں مومن کی جان کو حُب ِرسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے جوڑ دیا گیا ہے اور محبت دراصل ہے ہی اطاعت کی گردان۔
یعنی ہماری اطاعت ہی ہماری محبت کی پہچان ہے محبت کا دعویٰ کریں لیکن اس میں اطاعت نہ ہو تو محبت میں شک کی بہت گنجائش نکلتی ہے قران کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
“اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس یعنی جان اور اس کے مال ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں”(سورہ توبہ)
جب نفس اور جان حُب ِرسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم اور جنت کے عوض رہن ہیں تو کیسے ایک مومن اطاعت رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے خالی ہو سکتا ہے۔
جھوٹ نہ بولو، چغلی نہ کھاؤ، سود سے بچو، غیبت نہ کرو، کم نہ تولو، فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو، اللہ کی باندھی ہوئی حدود کے قریب بھی نہ پھٹکو، محافل سجاؤ تو اطاعت رسول سے خالی نہ ہوں، اور ایسے بہت سے معاملاتِ دنیا کے احکامات ہمیں قران کریم سے ملتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قران کے احکامات کا عملی نمونہ تھے۔
دراصل حُب ِرسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم ہی ایک کسوٹی ہے قران کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے، اظہار محبت ہی اطاعت ہے۔ اپنے معاملات میں احکام شریعت پر عمل درآمد نہ کرنا لیکن رسول خدا سے عشق میں صرف نعتیں پڑھنا، دروبام سجانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ حُب ِرسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کہا جائے تو شک کی گنجائش رہتی ہے۔
ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا